|
واشنگٹن ڈی سی میں قائم شیکسپیئر فولجر لائبریری نے دنیا بھر سے اسکالرز کی تلاش کے بعد پاکستانی امریکی پروفیسر ڈاکٹر فرح کریم کوپر کو تاریخ کی پہلی غیر سفید فام ڈائریکٹر کے طور پر منتخب کیا ہے۔
فرح کریم کوپر کراچی میں پیدا ہوئی تھیں اور امریکہ آنے کے بعد وہ شروع میں ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں رہیں جہاں انہوں نے کالج سے پہلے کی تعلیم حاصل کی۔
اس وقت وہ لندن کے کنگز کالج میں شیکسپیئر اسٹڈیز کی پروفیسر اور شیکسپیئر گلوب تھیٹر کی ڈاڑیکٹر برائے تعلیم ہیں۔
تقریباً ایک صدی قدیم فولجر لائبریری میں برطانوی شاعر اور ڈرامہ نویس ولیم شیکسپیئر پر دنیا بھر سے لکھی گئی کتابوں اورتحقیق کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
فولجر کے بورڈ آف گورنرز کی طرف سے متفقہ طور پر ڈائریکٹر مقرر ہونے کے بعد فرح کوپر نے کہا کہ وہ فولجر شیکسپیئر لائبریری کی ڈائریکٹر کا کردار نبھانے پر بہت خوش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ادارے کے عملے اور اس کے بورڈ آف گورنرز کے ساتھ مل کر اس کی دوسری صدی میں رہنمائی کرنے کی منتظر ہیں۔
پروفیسر فرح کوپر کہتی ہیں کہ انہیں ابھی تک کراچی میں ایک پاکستانی تھیٹر کمپنی کی طرف سے اردو میں پیش کیے جانے والے شیکسپیئر کے ڈرامے 'دی ٹیمنگ آف دی شریو' کی پرفارمنس یاد ہے۔
ان کے مطابق اس پرفارمنس نے انہیں یاد دلایا کہ وہ پاکستانی تارکینِ وطن کی بیٹی ہوتے ہوئے ان تمام برسوں میں شیکسپیئر کے ڈراموں میں کیوں انتی دلچسبی رکھتی تھی۔
فرح کریم کوپر نے اخبار 'دی واشنگٹن پوسٹ' کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ شیکسپیئر میں ان کی دلچسبی اس وقت زیادہ ہو گئی جب انہوں نے نویں کلاس میں 'رومیو اینڈ جولیٹ' ڈرامہ پڑھا۔ ان کے بقول اس ڈرامے نے انہیں جنوبی ایشیا کی طے شدہ شادیوں کی روایت کی یاد دلائی۔
فرح کوپر نے کہا کہ ان کے لیے وہ ایک غیر معمولی لمحہ تھا۔ "ورنہ میں ایک 400 سالہ پرانے مصنف سے کیسے تعلق بنا سکتی تھی؟"
فرح کوپر نے لندن یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اس سے قبل انہوں نے کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی فلرٹن سے انگریزی ادب میں میں بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔
وہ اب تک کئی کتابوں، جائزوں اور تحقیقی مضامین میں 40 سے زیادہ تحریریں شائع کر چکی ہیں۔
فرح کوپر کی تازہ ترین کتاب 'دی گریٹ وائٹ بارڈ' کو امریکی اور برطانوی ادبی حلقوں میں پذیرائی ملی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے تحقیق اور تجزیے کے ذریعہ شیکسپیئر کے ڈراموں میں نسل پرستی کی مثالوں پر روشنی ڈالی ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کی تحریر کا مقصد یہ ہے کہ کس طرح شیکسپیئر کے ڈراموں میں نسل پرستی کے مسئلے کو جانچا جائے اور دنیا کے عظیم ترین ڈرامہ نویس سے عقیدت بھی برقرار رہے۔