بھارتی حکومت کی جانب سے منظور کردہ متنازع زرعی قوانین کے خلاف کاشت کاروں کا احتجاج 19 ویں روز بھی جاری ہے۔ کسان تنظیموں اور رہنماؤں نے پیر کو ایک روزہ بھوک ہڑتال کی ہے۔
احتجاج کے 19 ویں روز صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بھوک ہڑتال کی گئی جب کہ ملک کے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں بھی احتجاج کیا گیا۔
بھارتی ریاستوں اتر پردیش اور ہریانہ کو دارالحکومت نئی دہلی سے ملانے والی سرحدیں اب بھی بند ہیں اور کسان دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن قوانین واپس نہیں لیے جائیں گے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ تینوں قوانین واپس نہ لیے جائیں۔ ان کے مطابق وہ اپنے اس مطالبے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
کسان تنظیموں کے رہنماؤں نے متنازع زرعی قوانین میں ترمیم اور حکومت کی جانب سے اجناس کی مقرر کردہ کم سے کم قیمت یعنی 'ایم ایس پی' جاری رکھنے کی تحریری یقین دہانی کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملک کی دیگر ریاستوں سے کسانوں کے گروہ نئی دہلی کی جانب جا رہے ہیں۔ اس دوران دہلی- جے پور ہائی وے پر، جسے مظاہرین نے تقریباً بند کر رکھا ہے، 20 کسانوں کو اس وقت حراست میں لیا گیا، جب پولیس کی اجازت کے بغیر وہ نئی دہلی کی طرف جانے کی ضد کر رہے تھے۔
کسان رہنماؤں کے اعلان پر جو کسان جہاں دھرنا دیے بیٹھے ہیں، انہوں نے پیر کو اسی مقام پر بھوک ہڑتال کی۔
دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال نے بھی دہلی اور ہریانہ کے درمیان سنگھو بارڈر پر، جہاں ہزاروں کسان اپنے ٹریکٹر اور ٹرالیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، بھوک ہڑتال کی۔ انہوں نے عوام سے اس احتجاج میں شامل ہونے کی اپیل بھی کی۔
دھرنے میں شامل 'آل انڈیا کسان سبھا' کے قومی جنرل سیکرٹری اتول کمار انجان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت جب تک متنازع زرعی قوانین واپس نہیں لے گی، کسانوں کا احتجاج جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تو ہم ایک بار پھر پورے ملک کی سڑکیں بند کریں گے اور اس بار غیر معینہ مدت تک بند کریں گے۔
"حکومت کے وزرا کو ان کے دفتروں میں جانے نہیں دیں گے۔ احتجاج کے جتنے جمہوری طریقے ہیں سب کا استعمال کیا جائے گا۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب سردی بڑھنے لگی ہے۔ لیکن کسان اپنے کھیتوں اور فصلوں کو کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچانے کے لیے کچھ بھی برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کے بقول جب حکومت قوانین واپس لے گی، تو بات چیت کا راستہ بہتر انداز میں کھل جائے گا۔
اتول کمار انجان نے کہا کہ ابھی تو ہم سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ کے دروازے پر بھی بیٹھیں گے۔
بھارتی حکومت کے بعض وزرا کسانوں کی احتجاجی تحریک پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ ان کے احتجاج میں 'خالصتان تحریک' کے حامی اور دیگر ملک دشمن عناصر بھی شامل ہو گئے ہیں اور انہوں نے احتجاج کو ہائی جیک کر لیا ہے۔
اس الزام پر کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ایسا سمجھتی ہے تو وہ ان عناصر کو گرفتار کیوں نہیں کرتی؟
اتول کمار انجان اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احتجاج میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہے جن کے اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب ملکی سرحدوں کے دفاع کے لیے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ وہ لوگ حکومت کو ملک دشمن نظر آ رہے ہیں۔
بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ حکومت مذکورہ قوانین کے سلسلے میں مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ لیکن قوانین واپس لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حکومت نے ان قوانین سے متعلق عوام کو باخبر کرنے کے لیے 100 پریس کانفرنسیں اور 70 عوامی پروگرام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے مختلف محکمے بھی اپنی جانب سے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مذکورہ زرعی قوانین کسانوں کے مفاد میں ہیں۔
اس احتجاج کے دوران ہی بھارتی پنجاب کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل لکھوندر سنگھ جاکھڑ نے کسانوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
ادھر پیر کو 10 کسان تنظیموں نے وزیرِ زراعت نریندر سنگھ تومر سے ملاقات کی ہے اور مبینہ طور پر مذکورہ قوانین کی حمایت بھی کی ہے۔ احتجاجی کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔