بھارت میں متنازع زرعی قوانین کے خلاف کئی ماہ سے سراپا احتجاج کسانوں نے اتوار کو ریاست اتر پردیش کے شہر مظفر نگر میں ریلی نکالی اور حکومت سے مذکورہ قوانین فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
”کسان مہا پنچایت“ کے نام سے نکالی گئی ریلی کو گزشتہ چند ماہ کے دوران بڑی ریلیوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ ریلی میں اتر پردیش، ہریانہ، پنجاب، راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، تیلنگانہ اور دیگر ریاستوں کے کسانوں نے شرکت کی۔
ریلی میں اعلان کیا گیا کہ کسان تحریک کے نو ماہ مکمل ہونے پر 27 ستمبر کو زرعی قوانین کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی جائے گی۔
مبصرین کے مطابق مظفر نگر کی ریلی نے 1988 میں پارلیمنٹ کے سامنے بوٹ کلب پر ہونے والی کسان ریلی کی یاد دلا دی جس میں اطلاعات کے مطابق پانچ لاکھ کسانوں نے شرکت کی تھی۔ اُس ریلی کا انعقاد موجودہ کسان رہنما راکیش ٹکیت کے والد مہیندر سنگھ ٹکیت نے کیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے مقامی پولیس ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ مظفر نگر کی ریلی میں پانچ لاکھ افراد شریک ہوئے جب کہ بعض دیگر ذرائع کے مطابق اس میں لاکھوں کسانوں نے شرکت کی اور مظفر نگر کے قرب و جوار میں 20 کلو میٹر کے دائرے میں ٹریفک معطل رہی۔
SEE ALSO: بھارت میں کسان کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟کسانوں کی ایک بڑی تنظیم 'بھارتیہ کسان یونین' کے ترجمان راکیش ٹکیت نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کسان مہا پنچایت سے کسانوں کی تحریک میں نئی جان آ گئی ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اب ہم ملک کے تمام شہروں میں جائیں گے اور عوام کو بتائیں گے کہ مرکز اور اتر پردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتیں کسان مخالف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسان اگلے برس ہونے والے اسمبلی انتخابات میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کا خاتمہ کر دیں گے۔ ان کے مطابق کسان دہلی کی سرحدوں سے واپس جانے والے نہیں ہیں۔
بقول ان کے وہاں ہماری قبریں بن جائیں تو بن جائیں لیکن ہم اس وقت تک واپس نہیں ہوں گے جب تک کہ حکومت تینوں متنازع زرعی قوانین واپس نہیں لے لیتی۔
اللہ اکبر اور ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کی گونج
راکیش ٹکیت نے ریلی میں 'اللہ اکبر' کے نعرے لگائے اور کہا کہ ان کے والد کے زمانے میں بھی اللہ اکبر اور ہر ہر مہادیو کے نعرے بیک وقت لگتے تھے۔
یاد رہے کہ مظفر نگر وہ شہر ہے جہاں 2013 میں بدترین فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا جس میں 62 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 42 مسلمان تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں مسلمانوں نے نقل مکانی کی تھی اور وہ برسوں پناہ گزیں کیمپوں میں گزارے۔
مہا پنچایت میں کسان رہنماؤں نے الزام لگایا کہ بی جے پی نے سیاسی فائدے کے لیے ہندو مسلم فساد کرایا تھا۔ ہم اس کے ورغلانے میں آ گئے تھے لیکن اب ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور اب ہم ہندو مسلم فساد نہیں ہونے دیں گے۔
مہا پنچایت کے اسٹیج پر مقامی مسلمان رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔
ریلی کے موقع پر مسلمانوں نے ریلی میں شرکت کرنے والوں کے لیے مسجدوں کے دروازے کھول دیے اور شرکا کے لیے کھانے پینے کا بھی انتظام کرتے رہے۔
مبصرین کے مطابق مظفر نگر فساد کی وجہ سے مغربی اترپردیش میں فرقہ وارانہ بنیاد پر سماجی تقسیم ہوئی تھی جس کا فائدہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ہوا تھا۔
بی جے پی ووٹ کی خاطر فرقہ وارانہ فساد کرانے کے الزام کی سختی سے تردید کرتی رہی ہے۔
'کسان تحریک سے حکومت کو نقصان ہو رہا ہے'
مبصرین اور تجزیہ کاروں کے خیال میں جب سے کسان تحریک شروع ہوئی ہے بی جے پی کو نقصان ہو رہا ہے۔ وہ مغربی بنگال اور کیرالہ کے انتخابی نتائج کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان ریاستوں میں کسان رہنماؤں نے بی جے پی کے خلاف مہم چلائی تھی جس کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑا تھا۔
ان کے مطابق کسان خاص طور پر اتر پردیش، پنجاب اور ہریانہ کے کسان بی جے پی کا ووٹ بینک رہے ہیں۔ لیکن اب وہ اس سے ناراض ہیں۔ اس کا فطری اثر بی جے پی کے انتخابی امکانات پر پڑے گا اور اگلے برس ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس کو شکست ہو سکتی ہے۔
سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سے کسان تحریک شروع ہوئی ہے 600 سے زائد کسانوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ لیکن کسانوں کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔
ان کے مطابق اتر پردیش میں ابھی چند ماہ قبل پنچایت انتخابات ہوئے ہیں جن میں بی جے پی تیسرے نمبر پر رہی۔ ان انتخابات میں بھی اس تحریک کا اثر پڑا تھا۔ اب جبکہ کسانوں نے ریاست کی تمام کمشنریوں میں اسی طرح کی مہا پنچایت کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس کا اثر ضرور پڑے گا اور ریاست میں بڑی سیاسی تبدیلی کے آثار ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب جب کہ جاٹ کسان اور مسلمان متحد ہو گئے ہیں تو یہ بی جے پی کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔
ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے مطابق اس سے قبل بھی جاٹ اور مسلمان متحد ہو کر ووٹ ڈالتے رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کبھی بھی بی جے پی کو کامیابی نہیں ملی تھی۔ البتہ مظفر نگر کے فساد کی وجہ سے اس کو سیاسی فائدہ پہنچا تھا۔
ان کے مطابق اس وقت جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ بی جے پی کو 403 رکنی اسمبلی میں 100 سے بھی کم نشستیں مل سکتی ہیں۔ حالانکہ وہ 250 سے زائد سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب اور ہریانہ میں بھی بی جے پی کی جیت کے امکانات نہیں ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کا فائدہ
مبصرین کے خیال میں اپوزیشن جماعتیں اس تحریک سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگرچہ مظفر نگر کی ریلی میں اپوزیشن رہنما دکھائی نہیں دیے لیکن اپوزیشن جماعتوں نے مہا پنچایت کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کسانوں کی آمدورفت کے علاوہ کھانے پینے کا بھی انتظام کیا اور جگہ جگہ ان کے پوسٹر اور بینر آویزاں تھے۔
ڈاکٹر تسلیم رحمانی اس سے متفق ہیں کہ کسان تحریک سے اپوزیشن کو فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ جب کسان بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کی اپیل کریں گے تو ظاہر ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے حق میں ہی ووٹ جائیں گے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حکومت بہت تدبیر ساز ہے۔ ممکن ہے کہ وہ جب یہ دیکھے کہ کسان تحریک کی وجہ سے اس کو انتخابی نقصان ہو رہا ہے تو کوئی ایسا فیصلہ کرے جو کسان تحریک کے اثر کو کم کر دے یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ زرعی قوانین میں کوئی بڑی تبدیلی کر دے۔ لیکن فی الحال جو صورت حال ہے وہ حکومت اور بی جے پی کے خلاف ہے۔
'کسان تحریک کا اثر پڑے گا'
سینئر تجزیہ کار اشوک کمار پانڈے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسان تحریک کا اثر آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات پر پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ ایک تو کسانوں کو یہ احساس ہے کہ حکومت نے ان کے ساتھ نا انصافی کی ہے اور دوسرا یہ کہ خاص طور پر مغربی اتر پردیش میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔
ان کے خیال میں بی جے پی نے گزشتہ الیکشن فرقہ وارانہ گروہ بندی کی بنیاد پر جیتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہو گا۔ کسان تحریک کی وجہ سے مغربی یو پی میں بی جے پی کو بڑا نقصان ہونے والا ہے۔
یاد رہے کہ حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے کام کی بنیاد پر ووٹ مانگتی ہے اور اس کے ایجنڈے میں ملکی ترقی کو ترجیح حاصل ہے۔ بی جے پی بھی مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کے الزام کی سختی سے تردید کرتی رہی ہے۔
اشوک کمار پانڈے کے خیال میں ہریانہ میں بھی بی جے پی حکومت کے خلاف عوام میں زبردست ناراضگی ہے اور وہاں کے کسان اور دوسرے لوگ بھی اگلے الیکشن میں بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ وہاں کی پولیس نے کسانوں پر جس طرح طاقت کا استعمال کیا اور ایک کسان ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے، اس کا اثر بھی الیکشن پر پڑے گا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے قبل جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے ہیں ان میں بی جے پی کو نقصان پہنچا تھا۔ اس نے آسام میں تو حکومت بنا لی ہے لیکن مغربی بنگال میں اس کو شکست ہوئی۔ کیرالہ میں اس کو حکومت میں آنے کی امید تھی لیکن وہاں پھر بائیں بازو کی حکومت بن گئی۔
کیا کسان تحریک سے معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے؟
پی ایچ ڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (پی ایچ ڈی سی سی آئی) کے مطابق جب سے اس تحریک کا آغاز ہوا ہے ملکی معیشت کو 70 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ خاص طور پر گزشتہ برس کے ماہ دسمبر میں پنجاب، ہریانہ اور دہلی کے سرحدی صوبوں میں سپلائی چین میں خلل پڑنے کی وجہ سے یہ نقصان ہوا۔
اشوک کمار پانڈے اور تسلیم رحمانی بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسان تحریک سے معیشت کو بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اشوک کمار پانڈے کے مطابق سینٹرل مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کی تازہ رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں پندرہ لاکھ افراد کی ملازمتیں ختم ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت ابتر حالت میں ہے۔ کسان تحریک کا اثر بھی پڑ رہا ہے۔ دہلی کی سرحدوں پر کسان بیٹھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اشیا کی آمد و رفت متاثر ہے۔ لہٰذا اگر حکومت نے اس مسئلے کو جلد حل نہیں کیا تو ملکی معیشت جو کہ پہلے ہی نچلی سطح پر چلی گئی ہے اور نیچے چلی جائے گی۔
ایک اور تجزیہ کار اجے کمار کا کہنا ہے کہ یہ تحریک تمام کسانوں کی تحریک نہیں ہے۔ کسانوں کی بہت بڑی تعداد اس سے الگ ہے۔ لہٰذا یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ تمام کسان حکومت کے خلاف ہیں۔
ان کے خیال میں ممکن ہے کہ اس تحریک کا اسمبلی انتخابات پر کچھ اثر پڑے لیکن اس کی وجہ سے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست ہو گی اس سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔
'یہ انتخابی ریلی تھی'
دریں اثنا بی جے پی نے مظفر نگر کی ریلی کو انتخابی ریلی قرار دیا ہے۔ اس نے الزام لگایا ہے کہ مہا پنچایت کے منتظمین اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کی وجہ سے سیاست میں ملوث ہو گئے ہیں۔
بی جے پی کے ”کسان مورچہ“ کے سربراہ رکن پارلیمنٹ راج کمار چاہر کا کہنا ہے کہ کسان رہنما سیاست کرنے کی خاطر کسانوں کا استحصال کر رہے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مودی حکومت نے کسانوں کے لیے جتنا کچھ کیا ہے کسی اور حکومت نے نہیں کیا ہے۔
'حکومت کسان دوست ہے'
ادھر مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ مودی حکومت کسان دوست حکومت ہے۔ اس نے نہ صرف یہ کہ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس نے مزید منڈیاں بنائی ہیں اور کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے اقدامات کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ہمیشہ کسان رہنماوں سے مذاکرات کے حق میں رہی ہے۔
خیال رہے کہ حکومت اور کسان رہنماوں کے درمیان مذاکرات کے 12 ادوار ہو چکے ہیں جو تاحال بے نتیجہ رہے ہیں۔ 22 جنوری کو مذاکرات کا آخری دور ہوا تھا جس کے بعد سے تعطل ہے۔