تحقیقی رپورٹ کے مطابق والد کی خاندان شروع کرنے سے پہلے کی کھانے پینے کی عادتیں بھی بچےکی نشوونما اور صحت کو متاثر کرسکتی ہیں۔
لندن —
طبی ماہرین کہتے آئے ہیں کہ دوران حمل ماں کا وزن اور اس کی خوراک کا نوزائیدہ بچے کی صحت پر گہرا اثر پڑتا ہے لیکن سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق کے نتیجے سے اخذ کیا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کی نشوونما صرف ماں کے طرز زندگی سے متاثر نہیں ہوتی ہے۔
بلکہ مستقبل کے والد کی خاندان شروع کرنے سے پہلے کی کھانے پینے کی عادتیں بھی بچےکی نشوونما اور صحت کو متاثر کرسکتی ہیں۔
میک گل یونیورسٹی مونٹریال سے وابستہ محقیقین کا کہنا ہے کہ حمل سے قبل ممکنہ والد کی غذا بچے کی صحت کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے لہذا خاندان شروع کرنے سے پہلےجنک فوڈ کھانے کی عادت چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ صحت مند غذا استعمال کرنی چاہیئے۔
تحقیق کی سربراہ سارہ کیمنس اور ان کے ساتھیوں نے تحقیقی مطالعے میں وٹامن بی 9 ( فولک ایسڈ ) کے انتہائی اہم کردار پر روشنی ڈالی ہےجن کا کہنا ہے کہ بچوں میں پیدائشی نقائص اورحمل ضائع ہونے کے خطرے سے بچنے کے لیے ماؤں کی خوراک میں فولک ایسڈ کا کافی مقدارمیں شامل ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اسی طرح مستقبل کے والد کو بھی فولک ایسڈ کی کمی پوری کرنے کے لیے اپنی خوراک میں زیادہ سے زیادہ ہری سبزیاں شامل کرنی چاہیئں جو قدرتی طور پر ہری اور پتے دار سبزیوں، پھل، اناج اور گوشت میں پایا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر کیمنس نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بچے میں نصف موروثی معلومات والد کی جین سے منتقل ہوتی ہیں اس لیے اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ آنے والے بچے کی نشو و نما پر بھی اس کا گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
نیچر کمیونیکیشن جریدے کے مضمون کے مطابق فولک ایسڈ کی کمی سے اسپرم کے ڈی این اے کی کیمسٹری تبدیل ہو سکتی ہےجس میں والد کی طرز زندگی کی میموری محفوظ ہوتی ہے پھریہی غلط معلومات والی جین بچے میں منتقل ہوتی ہےجو بچے کو طویل المدتی بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔
محققین نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر پیدائشی نقائص حمل کے ابتدائی تین ماہ میں ہی نمودار ہو جاتے ہیں جن میں سے 50 فیصد نقائص کے اسباب کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ شایدحمل سے قبل ہی جنم لے چکے ہوتے ہیں۔
چوہوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتیجے کے بارے میں ڈاکٹرکیمنس نے بتایا کہ انھیں شدید حیرت ہوئی کہ جن چوہوں میں فولک ایسڈ کی کمی تھی ان کے بچوں میں 30 فیصد زیادہ پیدا ئشی نقائص کا خطرہ موجود تھاجن میں بعض دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے شدید نوعیت کے نقائص بھی شامل تھے۔
تاہم ڈاکٹر کیمنس کے مطابق تحقیق کا نتیجہ مردوں کو متوجہ کر سکے گا کہ والد بننے کے خواہشمند حضرات اپنے کھانے پینے کا خاص خیال رکھیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی این اے کے نقصانات کو چند ماہ کی صحت مند غذا کے ذریعے درست کیا جاسکتا ہے لہذا اب مستقبل کے والد کو بھی کھانے پینے سے پہلے یہ سوچنا ہو گا کہ وہ کیا کھا رہے ہیں کیونکہ وہ صرف اپنی صحت کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی آنے والی بچوں کی صحت کے بھی ذمہ دار ہیں۔
بلکہ مستقبل کے والد کی خاندان شروع کرنے سے پہلے کی کھانے پینے کی عادتیں بھی بچےکی نشوونما اور صحت کو متاثر کرسکتی ہیں۔
میک گل یونیورسٹی مونٹریال سے وابستہ محقیقین کا کہنا ہے کہ حمل سے قبل ممکنہ والد کی غذا بچے کی صحت کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے لہذا خاندان شروع کرنے سے پہلےجنک فوڈ کھانے کی عادت چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ صحت مند غذا استعمال کرنی چاہیئے۔
تحقیق کی سربراہ سارہ کیمنس اور ان کے ساتھیوں نے تحقیقی مطالعے میں وٹامن بی 9 ( فولک ایسڈ ) کے انتہائی اہم کردار پر روشنی ڈالی ہےجن کا کہنا ہے کہ بچوں میں پیدائشی نقائص اورحمل ضائع ہونے کے خطرے سے بچنے کے لیے ماؤں کی خوراک میں فولک ایسڈ کا کافی مقدارمیں شامل ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اسی طرح مستقبل کے والد کو بھی فولک ایسڈ کی کمی پوری کرنے کے لیے اپنی خوراک میں زیادہ سے زیادہ ہری سبزیاں شامل کرنی چاہیئں جو قدرتی طور پر ہری اور پتے دار سبزیوں، پھل، اناج اور گوشت میں پایا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر کیمنس نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بچے میں نصف موروثی معلومات والد کی جین سے منتقل ہوتی ہیں اس لیے اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ آنے والے بچے کی نشو و نما پر بھی اس کا گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
نیچر کمیونیکیشن جریدے کے مضمون کے مطابق فولک ایسڈ کی کمی سے اسپرم کے ڈی این اے کی کیمسٹری تبدیل ہو سکتی ہےجس میں والد کی طرز زندگی کی میموری محفوظ ہوتی ہے پھریہی غلط معلومات والی جین بچے میں منتقل ہوتی ہےجو بچے کو طویل المدتی بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔
محققین نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر پیدائشی نقائص حمل کے ابتدائی تین ماہ میں ہی نمودار ہو جاتے ہیں جن میں سے 50 فیصد نقائص کے اسباب کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ شایدحمل سے قبل ہی جنم لے چکے ہوتے ہیں۔
چوہوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتیجے کے بارے میں ڈاکٹرکیمنس نے بتایا کہ انھیں شدید حیرت ہوئی کہ جن چوہوں میں فولک ایسڈ کی کمی تھی ان کے بچوں میں 30 فیصد زیادہ پیدا ئشی نقائص کا خطرہ موجود تھاجن میں بعض دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے شدید نوعیت کے نقائص بھی شامل تھے۔
تاہم ڈاکٹر کیمنس کے مطابق تحقیق کا نتیجہ مردوں کو متوجہ کر سکے گا کہ والد بننے کے خواہشمند حضرات اپنے کھانے پینے کا خاص خیال رکھیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی این اے کے نقصانات کو چند ماہ کی صحت مند غذا کے ذریعے درست کیا جاسکتا ہے لہذا اب مستقبل کے والد کو بھی کھانے پینے سے پہلے یہ سوچنا ہو گا کہ وہ کیا کھا رہے ہیں کیونکہ وہ صرف اپنی صحت کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی آنے والی بچوں کی صحت کے بھی ذمہ دار ہیں۔