آج کل کے والد اپنے والد کی نسبت بچوں کے ساتھ سات گنا زیادہ وقت گذارتے ہیں۔
یہ انکشاف ایک مطالعے کے نتیجے میں کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چالیس برس پہلے کے والد کے مقابلے میں آج کل کے والد اپنے بچوں پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔
برطانوی اخبار 'گارڈین' میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق اگرچہ والد کا بچوں کے ساتھ ایک دن میں اوسط وقت گزارنے کا دورانیہ اب بھی بہت کم ہے، یعنی صرف دن بھر میں 35 منٹ، لیکن یہ 1974ء میں والد کے اوسط وقت 5 منٹ سے کہیں زیادہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی ماؤں کا بھی بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کے اوقات کار میں اضافہ ہوا ہے جو کہ 15 منٹ سے بڑھ کر ایک گھنٹہ ہو گیا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ بچوں کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے لیکن اضافی وقت گزارنے والے گھرانوں میں پریشان کن سماجی تفاوت نظر آیا ہے۔
یعنی ء1970 کے والد کی نسبت آج کل کے والد بچوں کو زیادہ وقت دیتے ہیں لیکن اس مطالعے کے ذریعے والدین کی تعلیمی سطح کی بنیاد پر سماجی عدم مساوات کا بھی پتہ چلتا ہے۔
مطالعے کے مطابق زیادہ تعلیم یافتہ والد اپنے بچوں کے ساتھ ہوم ورک میں مدد کرنے اور تعلیمی مصروفیات کے حوالے سے زیادہ وقت گزارتے ہیں جب کہ کم تعلیم یافتہ والد کا اپنے بچوں کی پڑھائی لکھائی اور تعلیمی سرگرمیوں میں ان کے ساتھ شامل ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
'یونیورسٹی آف لندن' سے وابستہ ڈاکٹر ایلموڈینا سیویلا اور 'یونیورسٹی سیویلا' کی پروفیسر کرسٹینا بورا نے مطالعے کے لیے 1974ء سے 2005ء تک کے والدین اور بچوں کی ٹائم ٹیبل کی ڈائریاں استعمال کیں اور دیکھا کہ والدین کس طرح دن کے چوبیس گھنٹوں کو ملازمت، تفریح اور بچوں کے درمیان منقسم کرتے تھے۔
یہ تحقیق جون کے ماہ میں 'فادرز ڈے' کی مناسبت سے 'ای ایس آر سی ریسرچ میتھڈ فیسٹیول' میں پیش کی گئی۔
ماؤں کی طرف سے یہ اضافی وقت ان کے فارغ وقت اور گھر کے کاموں سے نکالا گیا تھا لیکن والد اپنی ملازمت کے اوقات میں سے اضافی وقت نکالتے ہیں۔ محققین نے کہا کہ یہ نتیجہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ آج کل کے والد کیریر کے مقابلے میں باپ کے فرائض کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہیں۔
تاہم ڈاکٹر سیویلا نے کہا کہ مطالعے کے نتیجے کا بنیادی مقصد اس سماجی عدام مساوات کو ظاہر کرنا ہے۔ کیونکہ اگر تعلیم یافتہ والدین بچے کی قابل قدر سرگرمیوں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بچوں کی نشوونما اور ان کی کارکردگی پر بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن کم تعلیم یافتہ گھرانوں میں جہاں ایسا نہیں کیا جاتا ہے ان کے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر سیویلا نے مطالعے سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بچے جن کے والد زیادہ تعلیم یافتہ تھے وہ نہ صرف اپنے والد سے زیادہ وقت حاصل کر رہے تھے بلکہ انھیں نجی اسکول اور ٹیوشن کی شکل میں زیادہ مالی وسائل بھی دستیاب تھے۔
اس نتیجے کے براہ راست اثرات سماجی تفاوت کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1970ء میں والدین کا بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کے اوقات میں معمولی سا سماجی فرق تھا۔ مثلاً اس زمانے میں میٹرک پاس مائیں دن بھر میں 5 منٹ اور والد محض 6 منٹ ہی بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ تاہم اس وقت سے 1990ء تک اعلی تعلیم یافتہ مائیں اور والد کا بچوں کے ساتھ گزارے جانے والے وقت میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
سنہ 2005 میں تعلیمی سطح سے قطع نظر تمام والدین بچوں کو ایک ہی جتنا وقت دیتے تھے جس کی وجہ بچوں کی عام نگہداشت کی سرگرمیوں میں اضافہ تھا۔
مصنفین کے مطابق اس بات کا ایک اقتصادی پہلو بھی ہے کیوں کہ آج والد کا بچوں کی دیکھ بھال کرنا سماجی طور پر قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ والد کے دل میں ہمیشہ سے یہ احساس پایا جاتا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے تاہم آج جبکہ ملازمت پیشہ ماوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے تو والد کے پاس بچوں کی نگہداشت فراہم کرنےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔
مطالعے میں والدین سے حاصل کردہ نتائج کو بچوں کی ڈائری کے ساتھ موازنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ، تعلیم یافتہ گھرانوں میں بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں اور ہوم ورک میں مدد فراہم کرنے کے اوقات کار میں 1970کے مقابلے میں تین گنا اضافہ ہوا یعنی دن میں 35 منٹ سے ہوم ورک کا ٹائم 2000 میں 90 منٹ ہو گیا۔
لیکن 1970میں والدین کے پس منظر سے قطع نظربچے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت ہوم ورک کرنے میں گزارتے تھے۔
ایک اورتحقیقی سروے میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 27 فیصد گھرانوں میں بچے کھیلنے کودنے کے مشاغل میں بطور ساتھی والد کو اپنا فیورٹ بتاتے ہیں۔ اس کے برعکس 24 فیصد گھرانوں میں ماوں کے ساتھ اور 21 فیصد خاندانوں کے مطابق بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے کو پسندیدہ قرار دیا گیا۔