خود ساختہ جلا وطن افغان صدر اشرف غنی کی حکومت میں پاکستان کے لئےافغانستان کے خصوصی نمائندے محمد عمر داؤدزئی نے وائس آف امریکہ اردو سے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے اب تک جو بھی بیانات یا احکامات سامنے آئے ہیں وہ 'امید افزا' ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "اس وقت کے طالبان اور نوے کی دہائی کے طالبان میں فرق نظر آرہا ہے۔ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ آج کے طالبان میں بدل چکے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی 43 سالہ جنگ ختم ہو رہی ہے جب کہ افغانستان کی سیکیورٹی کی صورت حال تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہے"۔
وائس آف امریکہ اردو کے ساتھ ایک خصوصی فیس بک لائیو انٹرویو میں افغان سفارتی نمائندے نے کہا کہ وہ کابل سے گزشتہ ہفتے کے روز دبئی آئے ، جس کے اگلے دن کابل میں 'انقلاب' آگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ دنوں میں افغانستان واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ''مستقبل کی حکومت میں طالبان اگرچہ تمام فریقوں کی شمولیت کی بات کرتے ہیں، لیکن آئندہ دنوں میں پتا چل سکے گا کہ عملی طور پر ایسا ہوتا ہے یا نہیں۔ داودزئی کا کہنا تھا کہ انہیں (طالبان کو)ہم سے بھی بات کرنی چاہیے، کیونکہ ہم گزشتہ چند دہائیوں سے حکومت اور انتظامیہ میں رہے ہیں۔ انہیں ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے"۔
عمر داؤدزئی نے بتایا کہ ان کا صدر اشرف غنی کے کابل سے نکلنے کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ صدر اشرف غنی اتوار کے روز کابل سے کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہو گئے تھے۔
بقول ان کے، "مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں ۔جب مجھے یہ پتا چلا کہ اشرف غنی افغانستان سے چلے گئے ہیں تو میں حیران بھی ہوا اور ناامید بھی۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ حالیہ لڑائی شروع ہونے کے بعد سے ان سے میرے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ میں صلح کے آپشن کو ترجیح دیتا تھا لیکن صدر غنی نے جنگ کا راستہ اختیار کیا، جو میری ترجیح نہیں تھی"۔
یاد رہے کہ صدر بائیڈن نے منگل کی سہ پہر اپنے خطاب میں کہا کہ اگر افغانستان کی اپنی فوج اپنے ملک کے دفاع کے لئے لڑنا نہیں چاہتی، تو امریکی فوجی کیوں اس کام کے لئے اپنی جانیں داؤ پر لگائیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کابل پر افغانستان کے قبضے کا واقعہ جس تیزی سے پیش آیا، اس کی کیا وجوہات تھیں؟ افغان سیکیورٹی فوریسز انہیں روکنے میں کامیاب کیوں نہ ہو سکیں؟۔ صدر غنی کے خصوصی سفارت کار نے بتایا کہ اس کی کئی وجوہات تھیں۔
"سب سے پہلی بات تو یہ کہ سیکیورٹی فورسز، پولیس اور افغانستان کا ہر عام شخص امن اور صلح چاہتے تھے، لیکن صدر غنی اور ان کے اردگرد لوگوں نے جنگ کا راستہ اختیار کیا تھا۔ خاص طور پر، عید کے بعد سے افغان فوج نے اس پر اتفاق کا اظہار نہ کرتے ہوئے جنگ نہیں کی۔ اس کے علاوہ بد انتظامی اور قائدانہ صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے نوبت یہاں تک جا پہنچی"۔
طالبان حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے، تو افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہونگے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے عمر داؤدزئی کا کہنا تھا کہ یہ یقینی بات ہے کہ طالبان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات مثبت اور اچھے ہوں گے، بلکہ خطے کے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں گے، جو ان کی حکومت کو تسلیم کئے جانے کے لئے اچھا شگون ہو گا۔ طالبان علاقائی رابطوں کی اہمیت کو سجھتے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ خواتین سرکاری چینل پر واپس آ گئی ہیں۔ سکول بھی کھل رہے ہیں۔ لیکن حجاب کے حوالے سے طالبان کا موقف ابھی واضح طور پر سامنے نہیں آیا۔
عمر داود زئی نے بین الاقوامی کمیونٹی اور خاص طور پر امریکہ سے مطالبہ کیا کہ آنے والے دنوں میں ان کا رابطہ افغان حکومت، انتظامیہ سے نہیں بلکہ افغان لوگوں سے ہونا چاہئے۔
ان کے بقول، "بین الاقوامی برادری کو انسانی امداد بند نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اب اس کی اور بھی زیادہ ضرورت ہو گی۔ افغان عوام کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے اور اگر طالبان کی پالیسیاں ٹھیک رہیں تو ترقیاتی مدد بھی جاری رہنی چاہیے"۔
افغان طالبان نے اتوار کے روز تقریبا 20سال بعد کابل پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ افغانستان میں اس وقت امن اور سیکیورٹی کے حوالے سے غیر یقینی کی صورت حال ہے۔