سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ سو کے قریب ایسے حامیوں پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے جو رواں سال چھ جنوری کو کیپٹل ہل کی عمارت پر حملے میں ملوث پائے گئے۔ یہ بات امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے جمعرات کو بتائی۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا کہ ایف بی آئی پیشگی یہ جاننے میں ناکام رہی کہ کیپٹل ہل پر حملہ ہونے جا رہا ہے۔
کرسٹوفر رے نے اس موقع پر اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کیا کہ آیا ایف بی آئی سابق صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں سے، کیپٹل ہل پر حملے کے لیے مظاہرین کو مبینہ طور پر اکسانے پر پوچھ گچھ کر رہی ہے یا نہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا تھا، جب کیپٹل ہل میں نومبر کے انتخابات میں جو بائیڈن کی فتح کی توثیق کے لیے اجلاس جاری تھا۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ کا ،اس سال کے شروع میں دوسری مرتبہ مواخذہ ہوا تھا۔ ان پر اپنے حامیوں کو کیپٹل ہل پر حملے کے لیے اکسانے کے لیے ایک اشتعال انگیز تقریر کا الزام ہے، جس میں انہوں نے ’ Fight like hell‘ یعنی پوری قوت سے لڑنے کی اصطلاح استعمال کی تھی
اگرچہ امریکی سینیٹ نے سابق امریکی صدر کو 13 فروری کو ان الزامات سے بری کر دیا تھا لیکن ڈیموکریٹس کا طویل عرصے سے مطالبہ رہا ہے کہ محکمہ انصاف مسٹر ٹرمپ کے رویے کے بارے میں تحقیقات کرائے، جس میں ہو سکتا ہے کہ مجرمانہ خلاف ورزی کی گئی ہو۔
کیپٹل ہل ہر حملے کے بعد امریکی کانگریس کی جیوڈیشری کمیٹی کے سامنے اپنی پہلی سماعت میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے 6 جنوری کو ہونے والی جھڑپوں کی مذمت کی اور اسے ’ مقامی دہشت گردی کا اقدام‘ قرار دیا تاہم اس کے لیے لفظ ’بغاوت‘ کا استعمال کرنے سے انکار کر دیا جیسا کہ بہت سے ڈیموکریٹ کہتے ہیں۔ کرسٹوفر رے نے مارچ میں سینیٹ کی جیوڈشری کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہوئے بھی اس طرح کا بیان دیا تھا۔
جمعرات کو مزید گرفتاریاں
یاد رہے کہ چھ جنوری کو سابق صدر ٹرمپ کے تقریباً 8 سو کے قریب حامیوں نے امریکی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں امریکی کیپٹل پولیس کے 5 آفیسروں سمیت 6 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
کرسٹوفر رے نے بتایا ہے کہ حملہ کرنے والوں کی تعداد یقینی طور پر بڑھتی جائے گی۔
گزشتہ روز دیر گئے امریکی محکمہ انصاف نے بتایا کہ کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے 6 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں سے 4 کی شناخت دائیں بازو کے گروپ ’’تھری پرسینٹرز‘‘ کے طور پر کی گئی ہے۔
ان افراد کو کیپٹل ہل پرحملے اور عمارت کے اندر غیر قانونی طور پر داخل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کرسٹوفر رے نے بتایا ہے کہ جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی اس سے قبل زیرتفتیش نہیں تھا۔ انہوں نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ ایف بی آئی ان افراد کو واشنگٹن کا سفر کرنے سے روکنے میں ناکام رہی۔
کیپٹل ہل حملے میں مبینہ طور پر ملوث زیادہ تر افراد کو جنہیں اب تک گرفتار کیا گیا ہے، املاک کو نقصان پہنچانے اور دیگر معمولی نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے۔
لیکن انتہائی دائیں بازو کے دو گروپوں ’ اوتھ کیپرز‘ اور ’ پراوڈ بوائز‘ کے درجنوں اراکین پر سازش اور دیگر جرائم کے مرتکب ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ کرسٹوفر رے نے بتایا ہے کہ ایف بی آئی مزید سنگین نوعیت کے الزامات سامنے لا رہی ہے۔
خطرات کا پتا نہیں چلا یا انہیں کم اہمیت دی گئی؟
ڈیموکریٹ رہنماء جیرالڈ نیڈلر نے، جو جیوڈیشری کمیٹی کے سربراہ ہیں، ایف بی آئی کی سرزنش کی کہ وہ کیپٹل ہل ہر کئی گھنٹوں پر محیط خونی حملے کا پیشگی پتا لگانے میں ناکام رہی۔ ان کا کہنا تھا:
’’عوام کی نظر میں یہ حملہ پہلے سے سوچا سمجھا تھا‘‘
ان کے بقول ٹرمپ کے حامی کھلے عام کیپٹل ہل کے اندر سرنگوں کا نقشہ ایک دوسرے کو فراہم کر رہے تھے اور عمارت کے اندر داخل ہو جانے کی دعوت دے رہے تھے۔
نیڈلر نے کہا کہ یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ آیا ایف بی آئی ہیڈکوارٹرز شواہد اکٹھے کرنے میں ناکام رہی یا بیورو کو اطلاعات تو ملیں لیکن وہ اس خطرے کو کم اہمیت دیتے رہے اور بروقت کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔‘‘
کرسٹوفر رے نے کہا کہ وہ اس بارے میں ان کے بقول ’ باخبر نہیں ہیں‘‘ کہ آیا ایف بی آئی اس بارے میں تحقیقات کر رہی ہے یا نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات نے کیپٹل ہل پر حملے میں کوئی کردار ادا کیا یا نہیں یا پھر یہ کہ ٹرمپ اور ان کے عہدیداروں نے کس طرح ان حملوں کا جواب دیا۔
ہاؤس کی جیوڈیشری کمیٹی کے ڈیموکریٹک رکن سٹیو کوہن کے اس سوال پر کہ آیا ایف بی آئی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی6 جنوری کے حملوں کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہی ہے، کرسٹو فر رے نے کہا، 'میرے خیال میں یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ ہم کسی مخصوص شخص کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے‘‘۔