|
خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک عدالت نے توہینِ مذہب کے الزام میں استانی کو قتل کرنے والی دو طالبات کو سزائے موت اور 20،20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ایک نابالغ لڑکی کو عمر قید سمیت دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔
استغاثہ کے مطابق 29 مارچ 2022 کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے انجم آباد میں مدرسہ جامعہ اسلامیہ فلاح البنات کی تین طالبات رضیہ حنیفہ، عائشہ نعمان اور عمرہ امان نے 18 سالہ خاتون ٹیچر 'س' کو گلے پر چھریاں پھیر کر ذبح کر دیا تھا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد جمیل نے پیر کو کیس کی سماعت کی۔ استغاثہ کی جانب سے پبلک پراسیکیوٹر تنصیر علی اور حاجی شکیل ایڈووکیٹ جب کہ ملزمان کی طرف سے اسد عزیز ایڈووکیٹ نے مقدمے کی پیروی کی۔
مقتولہ 'س' بی بی کے چچا کے مطابق وہ گھر پر موجود تھے کہ مدرسہ کی انتظامیہ کی جانب سے گھر کے موبائل نمبر پر اطلاع دی گئی کہ بھتیجی پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ مدرسے پہنچنے پر بھتیجی کی تشدد زدہ اور ذبح شدہ لاش گلی میں موجود تھی۔
مقتولہ کے چچا کے مطابق ان کی بھتیجی مدرسے میں پڑھاتی تھی جو معمول کے مطابق مدرسے گئی تھی کے مرکزی دروازے پر پہلے سے موجود تین طالبات نے اس پر حملہ کر کے قتل کر دیا۔
SEE ALSO: توہینِ مذہب کے مبینہ الزام پر دو طلبہ مجرم قرار؛ ایک کو سزائے موت اور دوسرے کو عمر قیدڈیرہ اسماعیل خان پولیس نے مقتولہ کے چچا کے بیان پر ابتدائی کارروائی کے بعد تینوں طالبات کو حراست میں لے کر چھریاں اور لاٹھی برآمد کی تھی۔
پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان میں گرفتار طالبات نے بتایا تھا کہ مدرسے میں ان کی ایک ساتھی طالبہ نے ان کے سامنے اپنا خواب بیان کیا تھا کہ مقتولہ گستاخ رسول ہے اور اسے قتل کرنے والے کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
استانی کو قتل کرنے کے جرم میں سزا پانے والی طالبات کے اہلِ خانہ نے عدالت کے فیصلے پر ابھی تک کسی قسم کے تبصرے یا ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ ہی گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے توہینِ مذہب کے مبینہ الزام پر ایک طالب علم کو سزائے موت جب کہ جرم میں شریک دوسرے طالب علم کو کم عمر ہونے کے باعث دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن اور رضا کار عرصہ دراز سے توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کی مختلف عدالتوں میں توہینِ مذہب کے زیرِ سماعت مقدمات کی شنوائی اور فیصلوں میں تاخیر پر بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں وقتاً فوقتاً احتجاج کرتی رہتی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں خواتین کے تحفظ کے لیے سرگرم عورت فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر شبینہ آیاز نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ توہینِ مذہب یا حدود آرڈیننس جیسے قوانین کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور لوگ ان قوانین کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کے قوانین کے غلط استعمال کو روکے اور یہ تب ممکن ہوگا جب ریاستی ادارے بالخصوص قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر واقعات کی صحیح معنوں میں تحقیقات کریں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل ہاشم رضا ایڈووکیٹ کہتے ہیں ڈیرہ اسماعیل خان واقعے میں ثابت ہوا ہے کہ ملزم خواتین لاشعوری یا جہالت کی مرتکب ہوئی ہیں جنہوں نے خواب کی بنیاد پر اپنی ہی استانی کو قتل کیا۔
انہوں نے کہ عدالت نے ریکارڈ اور شواہد کی بنیاد پر ایک فیصلہ کیا ہے، اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر عمل در آمد کرنا شروع کردیں تو توہینِ مذہب کے اس قانون کے غلط استعمال کی روک تھام میں مدد ضرور ملے گی۔