پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں جاری پانچویں ادبی میلے میں شرکت کے لیے آنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسے میلے امن و آہنگی اور گفت و شنید کی روایت کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جمعہ کو شروع ہونے والے اس تین روز میلے میں ملکی و غیر ملکی مصنفین، دانشور اور ادیب شریک ہیں جن کے درمیان مختلف موضوعات پر مباحثوں کو اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے تحت ہونے والے اس ادبی میلے کے دوسرے روز ہفتہ کو بھی عام شہریوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں مقامی تعلیمی اداروں کے طلبہ اور طالبات نے شرکت کی۔
عمار علی قریشی بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں برداشت اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینے میں ایسی تقریبات بہت اہم ہیں۔
"(یہ میلے) ایک تو کتابوں کو فروغ دیتے ہیں اور علم کے فروغ میں ایک نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔ پاکستان کا مثبت تشخص دنیا کے سامنے جانا چاہیے ان میں اس طرح کی جو تقریبات ہیں ان کا بڑا کلیدی کردار ہے ۔۔۔ کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے پاکستان سے متعلق ایک منفی تاثر پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے منفی تاثر کے تدارک کے لئے اس طرح کی تقریبات ضروری ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ یہ میلے محبت کے پیغام کو عام کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہیں۔
"آپ دیکھیں کہ یہاں پر مختلف موضوعات پر بحث ہورہی ہے کتابوں کی رونمائی ہورہی ہے کتابیں فروخت کرنے والے یہاں پر آئے ہوئے ہیں اور لوگ کتابیں خرید رہے ہیں اس کی وجہ سے ملک میں علم کے فروغ کے علاوہ کتابوں اور علم سے روشناسی اور محبت کا پیغام بھی جاتا ہے۔"
اس موقع پر پاکستان کی معروف ادبی شخصیت افتخار عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یہ میلہ خاص طور پر اسلام آباد جیسے شہر کے لیے بہت ضروری ہے۔
"میں یہ سمجھتا ہوں کی اسلام آباد کی فضا میں کہ جہاں ہر وقت سیاسی جھمیلے ہوتے ہیں اور سیاسی گفتگو ہوتی رہتی ہے کبھی ایک مسئلے پر کبھی دوسرے مسئلے پر ۔۔ یہ جو میلہ ہے یہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ نئی نسل میں کتب بینی کو فروغ دینے کے لئے بھی ایسے ادبی میلے ضروری ہیں۔
" اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ بچے اور نوجوان اور نئی نسل کے طالب علم اور طالبات کتنی بڑی تعداد میں یہاں شریک ہیں تین دن کا یہ میلہ کتابوں کی رونمائی ہے کتابوں پر گفتگو ہے موضوعات پر گفتگو ہے سیاست پر، تہذیب پر، تاریخ پر گفتگو پر اور میں سمجھتا ہوں کہ کتاب کی ثقافت کی تجدید کرنے کے لئے کتاب کی طرف نئی نسل کو متوجہ کرنے کے لئے یہ بہت بڑا قدم ہے۔ "
اس میلے کا اتوار کو آخری دن ہے۔