رواں ہفتے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ ملک میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران رواں سال افراط زر کی شرح کم ترین سطح پر رہی۔
ملک میں افراط زر کی شرح اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باعث ملک میں کھانے پینے اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں کمی کی توقع بھی کی جارہی تھی تاہم تاحال اس کے اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچے۔
مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کی آمد سے چند روز پہلے ہی ملک کے کئی شہروں میں ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔
پاکستان میں ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے تاہم یہ معاملہ اس وقت اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے جب رمضان سے قبل قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جائے۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب بڑے صوبے پنجاب کی حکومت کی طرف سے کئی شہروں میں سستے بازار قائم تو قائم کیے گئے ہیں لیکن وہاں سے گرانی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ہفتے کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں افراط زر کی شرح دو دہائیوں میں سب سے کم سطح پر ہے اور اب حکومت کی توجہ عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانے کی طرف ہے۔
تاہم حکومتی دعوؤں کے برعکس عام آدمی کی مشکلات فی الوقت ماضی جیسی ہی ہیں۔
دریں اثناء رمضان کی آمد سے قبل مستحق افراد میں راشن کی تقسیم کے لیے کراچی میں لگائے گئے ایک کیمپ میں اتوار کو بھگدڑ مچ گئی جس سے متعدد خواتین زخمی ہو گئیں۔
ماضی میں راشن کی تقسیم کے موقع پر بھگدڑ مچنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سے بعض مہلک بھی ثابت ہوئے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ مہنگاہی پر قابو پانے اور عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے مقامی حکومتوں کے نظام کو موثر بنانا ہو گا۔