کراچی آرٹس کونسل کے صدر نے اپنے خطبہٴاستقبالیہ میں کہا کہ کراچی تہذیب و ثقافت سےجڑا رہنا چاہتا ہے اور 'آرٹس کونسل' ادیبوں کے اس نمائندہ اجتماع کے ذریعے اس شہر کو افسردگی سے نکالنا چاہتی ہے
پچھلے دنوں کراچی میں 'آرٹس کونسل آف پاکستان' کے زیرِ اہتمام پانچویں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان و ہندوستان سمیت مختلف ممالک سے آنے والے شعرا، ادیب، نقاد اور ماہرینِ لسانیات شریک ہوئے۔
چار روزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست میں بھارت سے آئے ہوئے مشہور نقاد شمیم حنفی نے "ہندوستان میں اردو ادبکا اجمالی جائزہ" جب کہ معروف ادیب و افسانہ نگار انتظار حسین نے "پاکستان میں اردو ادب کا اجمالی جائزہ' کے عنوان سے کلیدی خطبے دیے۔
آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اردو کانفرنس کا تسلسل گزشتہ پانچ برسوں سے مسلسل جاری ہے اور ہر گزرتے برس کانفرنس کی مقبولیت اور افادیت میں اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی تہذیب و ثقافت سے جڑا رہنا چاہتا ہے اور 'آرٹس کونسل' ادیبوں کے اس نمائندہ اجتماع کے ذریعے اس شہر کو افسردگی سے نکالنا چاہتی ہے۔
ڈاکٹر شمیم حنفی نے ہندوستان میں اردو ادب کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہندوستان کی دو درجن زبانوں میں سے ایک ہے اور اردو ادب جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مزاحمتی ادب موجود ہے جبکہ ہندوستان میں مزاحمتی ادب کی روایت موجود نہیں۔
اپنے خطبے میں ڈاکٹر شمیم حنفی کا کہنا تھا کہ سنجیدہ ادب پڑھنے والوں کا حلقہ محدودہوگیا ہے جس کے باعث ہندوستانی معاشرہ ادبی روایات کے مسائل سے دوچار ہے۔ ان کے بقول موجودہ ادبی تنقید سے مطالعے کے شوق کے بجائے خوف پیدا ہورہا ہے۔
ڈاکٹر حنفی کا کہنا تھا کہ ادب میں کتاب کی موت کا وقت آگیا ہے مگر ان کے بقول انہیں یقین ہے کہ کتاب ہمیشہ موجود رہے گی کیوں کہ کتاب رفاقت کا جو احساس پیدا کر تی ہے وہ کوئی دوسرا ذریعہ پیدا نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ اخلاقیات کو فراموش کرکے ادب تو کیا ، زندگی کا بھی تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔
معروف ادیب،نقاد و افسانہ نگار انتظار حسین کا "پاکستان میں اردو ادب" کے موضوع پر اپنے کلیدی خطبے میں کہنا تھا کہ آج دنیا سمٹتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن اردو پھیل رہی ہے جو اس کے فروغ کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اردو ادب کی روایت ایک ہی چلی آرہی ہے اور دو ملکوں میں تقسیم ہوجانے کے باوجود برصغیر میں اردو اب بھی وہی ایک ہے ۔
اپنے خطبے میں انتظار حسین کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں تہذیب اور قومی شناخت اب بھی وہی قدیم ہے لیکن قیامِ پاکستان کے بعد سرحد کے اِس پار والوں کے لیے تہذیب اور شناخت کا مسئلہ کھڑا ہوا جس نے یہاں کے ادب کو ایک نئی جہت دی۔
چھ سے نو دسمبر تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں کئی کتابوں کے اجرا اور تقاریبِ پذیرائی کے علاوہ 'اردو مزاح'، 'اردو ادب کا عالمی تناظر '، 'تحقیق و تنقید' اور 'ذرائع ابلاغ' سمیت دیگر موضوعات پر نشستیں ہوئیں۔
'تحقیق و تنقید کا عصری منظر نامہ' کے عنوان سے منعقدہ نشست کی صدارت کالم نگار اور افسانہ نویس مسعود اشعر نے کی جب کہ ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، سید مظہر جمیل اور ڈاکٹر معین الدین عقیل نے متعلق موضوعات پر مقالے پڑھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ تنقید، تخلیق کے سرچشمے سے استفادہ کرتی ہے اور نقاد تخلیقی عمل کو آگے بڑھاتا ہے۔ تمام ادبی تحریکوں کا دارومدار تنقید پر تھا۔ اردو ادب میں تحقیق کے میدان میں اولین کام مستشرقین کی جانب سے سامنے آیا جن کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
تفصیلی رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئیے:
کانفرنس میں 'بیادِ رفتگاں' کے عنوان سے بھی ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر اور ممتاز شاعر پیرزادہ قاسم نے کی۔
دورانِ نشست ڈاکٹر ایوب شیخ نے سندھی زبان کے معروف ادیب و شاعر شمشیر الحیدری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ جدید سندھی شاعری کا اہم ستون تھے جنہوں نے سندھی صحافت کو بھی اپنی فکر سے روشن کیا۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اردو کی سب سے بڑی آڈیو لائبریری کے مالک لطف اللہ خان کی شخصیت پر مقالہ پڑھا جب کہ معروف موسیقار اور فن کار ارشد محمود نے شہنشاہِ غزل مہدی حسن سے متعلق اپنی یاد داشتیں حاضرین کے گوش گزار کیں۔
اردو کے معروف افسانہ نگار کرشن چندر پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر آصف فرخی کا کہنا تھا کہ ان کے افسانوں میں بصیرت کو جو روح نظر آتی ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں۔ ڈاکٹر فرخی کا کہنا تھا کہ کرشن چندر اپنی عمر کے آخری برسوں میں یکسانیت اور جمود کا شکار ہوگئے تھے لیکن ا ن کی شخصیت اور افکار کی صحیح نمائندگی ان کے عروج کے افسانوں سے ہوتی ہے۔
ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں حمید اختر پر گفتگو کرتے ہوئے اصغر ندیم سید نے کہا کہ حمید اختر ترقی پسند تحریک کے آخری سپاہی اور کارکن اور چلتی پھرتی سماجی اور ثقافتی تاریخ تھے۔ ان کے بقول حمید اختر ایک کہانی کار بھی تھے اور کسی منجھے ہوئے داستان گو کی طرح یادیں بیان کرنے کا ہنر جانتے تھے۔
صابر بدر جعفری نے اردو کے پہلے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی جب کہ صاحب ِ صدر پیرزادہ قاسم نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت اور فن پر گفتگو کی۔
اردو کے صاحبِ طرز شاعر اور نقاد میراجی کے سوویں جنم دن کی مناسبت سے کانفرنس کا ایک سیشن ان سے منسوب تھا جس میں مقررین نے میرا جی کے فن کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔
مقررین کا کہنا تھا کہ میرا جی کے فن سے زیادہ ان کی شخصیت پر گفتگو کی گئی اور ان کی ادبی جہات کا سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیا گیا۔ وہ ایک بڑے نثر نگار بھی تھے جب کہ جدید نظم کی تفہیم میں بھی انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔
نشست کے صاحبِ صدر شمیم حنفی نے کہا کہ میرا جی جدید اردو نظم کے بانی ہیں لیکن ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف بہت بعد میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف 37 برس کی عمر پانے والے میرا جی نے زندگی اور وقت کی سچائی کو دریافت کرنے کی کوشش کی اور انہیں اس سفر میں نہ قاری کی فکر تھی اور نہ نقاد کی۔
شمیم حنفی نے میراجی کی بعض نظمیں بھی پیش کیں۔
کانفرنس کے تیسرے دن جنوبی ایشیا کے تناظر میں'پائیدار علاقائی امن اور تخلیق کاروں کا کردار' کے موضوع پرمذاکرہ ہوا جس میں پر وفیسر شمیم حنفی، انتظار حسین، غازی صلاح الدین، پروفیسر جعفر احمد، ارشد محمود اور وسعت اللہ خان شریک تھے۔
شرکائے گفتگو نے جنوبی ایشیا میں قیامِ امن اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اہلِ قلم اور دانشوروں کے کردار پر روشنی ڈالی اور اس ضمن میں کئی اقدامات تجویز کیے۔
تیسرے دن کی دوسری نشست ' ذرائع ابلاغ- چند غور طلب پہلو' کے عنوان سے ہوئی جس میں لندن سے آئے ہوئے سینئر صحافی اور براڈ کاسٹر آصف جیلانی، معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی، مسعود اشعر، سرمد صہبائی، اخلاق احمد، احفاظ الرحمن ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ذرائع ابلاغ کی تاریخ، کردار اور رویوں پر اظہارِ خیال کیا۔
کانفرنس میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی شخصیت پر 'عظیم منٹو کی صدی' کے عنوان سے نشست کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس نشست میں انتظار حسین، زاہدہ حنا، رئیس فاطمہ ، شاہدہ حسن، ایم خالد فیاض اور ڈاکٹر ضیا ء الحسن نے منٹو کی شخصیت کی ادبی جہات پر تفصیلی گفتگو کی۔
مذکورہ نشستوں کے علاوہ کانفرنس میں شاعرِ عوام حبیب جالب مرحوم کی یاد میں خصوصی تقریب اور معروف براڈ کاسٹر ضیا محی الدین اور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے اعزاز میں علیحدہ علیحدہ تقاریبِ سپاس بھی منعقد ہوئیں۔
کانفرنس میں 'دو شاعر، ایک شام' کے عنوان سے اردو کے معروف مزاحیہ شاعر انور مسعود اور امجد اسلام امجد کے ساتھ ایک شام کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں دونوں شعرائے کرام نے اپنےاپنے مخصوص انداز میں مزاحیہ اور رومانوی شاعری سنا کر حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔
کراچی کی کئی معتبر سیاسی و سماجی اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہیں۔ کانفرنس میں پیپلز پارٹی سندھ کے سیکریٹری جنرل تاج حیدر اور معروف اداکارہ زیبا بختیار نے اپنے تاثرات بیان کیے۔
کانفرنس کے چار روز آرٹس کونسل میں میلے کا سا سماں رہا اور خوب گہما گہمی رہی۔
کانفرنس کی خاص بات اس میں عوام و خواص کی بڑی تعداد میں شرکت تھی جس سے اس تاثر کی نفی ہوئی کہ لوگوں کو اب علم و ادب سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
چار روزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست میں بھارت سے آئے ہوئے مشہور نقاد شمیم حنفی نے "ہندوستان میں اردو ادبکا اجمالی جائزہ" جب کہ معروف ادیب و افسانہ نگار انتظار حسین نے "پاکستان میں اردو ادب کا اجمالی جائزہ' کے عنوان سے کلیدی خطبے دیے۔
آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اردو کانفرنس کا تسلسل گزشتہ پانچ برسوں سے مسلسل جاری ہے اور ہر گزرتے برس کانفرنس کی مقبولیت اور افادیت میں اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی تہذیب و ثقافت سے جڑا رہنا چاہتا ہے اور 'آرٹس کونسل' ادیبوں کے اس نمائندہ اجتماع کے ذریعے اس شہر کو افسردگی سے نکالنا چاہتی ہے۔
ڈاکٹر شمیم حنفی نے ہندوستان میں اردو ادب کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہندوستان کی دو درجن زبانوں میں سے ایک ہے اور اردو ادب جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مزاحمتی ادب موجود ہے جبکہ ہندوستان میں مزاحمتی ادب کی روایت موجود نہیں۔
اپنے خطبے میں ڈاکٹر شمیم حنفی کا کہنا تھا کہ سنجیدہ ادب پڑھنے والوں کا حلقہ محدودہوگیا ہے جس کے باعث ہندوستانی معاشرہ ادبی روایات کے مسائل سے دوچار ہے۔ ان کے بقول موجودہ ادبی تنقید سے مطالعے کے شوق کے بجائے خوف پیدا ہورہا ہے۔
ڈاکٹر حنفی کا کہنا تھا کہ ادب میں کتاب کی موت کا وقت آگیا ہے مگر ان کے بقول انہیں یقین ہے کہ کتاب ہمیشہ موجود رہے گی کیوں کہ کتاب رفاقت کا جو احساس پیدا کر تی ہے وہ کوئی دوسرا ذریعہ پیدا نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ اخلاقیات کو فراموش کرکے ادب تو کیا ، زندگی کا بھی تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔
معروف ادیب،نقاد و افسانہ نگار انتظار حسین کا "پاکستان میں اردو ادب" کے موضوع پر اپنے کلیدی خطبے میں کہنا تھا کہ آج دنیا سمٹتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن اردو پھیل رہی ہے جو اس کے فروغ کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اردو ادب کی روایت ایک ہی چلی آرہی ہے اور دو ملکوں میں تقسیم ہوجانے کے باوجود برصغیر میں اردو اب بھی وہی ایک ہے ۔
اپنے خطبے میں انتظار حسین کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں تہذیب اور قومی شناخت اب بھی وہی قدیم ہے لیکن قیامِ پاکستان کے بعد سرحد کے اِس پار والوں کے لیے تہذیب اور شناخت کا مسئلہ کھڑا ہوا جس نے یہاں کے ادب کو ایک نئی جہت دی۔
چھ سے نو دسمبر تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں کئی کتابوں کے اجرا اور تقاریبِ پذیرائی کے علاوہ 'اردو مزاح'، 'اردو ادب کا عالمی تناظر '، 'تحقیق و تنقید' اور 'ذرائع ابلاغ' سمیت دیگر موضوعات پر نشستیں ہوئیں۔
'تحقیق و تنقید کا عصری منظر نامہ' کے عنوان سے منعقدہ نشست کی صدارت کالم نگار اور افسانہ نویس مسعود اشعر نے کی جب کہ ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، سید مظہر جمیل اور ڈاکٹر معین الدین عقیل نے متعلق موضوعات پر مقالے پڑھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ تنقید، تخلیق کے سرچشمے سے استفادہ کرتی ہے اور نقاد تخلیقی عمل کو آگے بڑھاتا ہے۔ تمام ادبی تحریکوں کا دارومدار تنقید پر تھا۔ اردو ادب میں تحقیق کے میدان میں اولین کام مستشرقین کی جانب سے سامنے آیا جن کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
تفصیلی رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5
کانفرنس میں 'بیادِ رفتگاں' کے عنوان سے بھی ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر اور ممتاز شاعر پیرزادہ قاسم نے کی۔
دورانِ نشست ڈاکٹر ایوب شیخ نے سندھی زبان کے معروف ادیب و شاعر شمشیر الحیدری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ جدید سندھی شاعری کا اہم ستون تھے جنہوں نے سندھی صحافت کو بھی اپنی فکر سے روشن کیا۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اردو کی سب سے بڑی آڈیو لائبریری کے مالک لطف اللہ خان کی شخصیت پر مقالہ پڑھا جب کہ معروف موسیقار اور فن کار ارشد محمود نے شہنشاہِ غزل مہدی حسن سے متعلق اپنی یاد داشتیں حاضرین کے گوش گزار کیں۔
اردو کے معروف افسانہ نگار کرشن چندر پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر آصف فرخی کا کہنا تھا کہ ان کے افسانوں میں بصیرت کو جو روح نظر آتی ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں۔ ڈاکٹر فرخی کا کہنا تھا کہ کرشن چندر اپنی عمر کے آخری برسوں میں یکسانیت اور جمود کا شکار ہوگئے تھے لیکن ا ن کی شخصیت اور افکار کی صحیح نمائندگی ان کے عروج کے افسانوں سے ہوتی ہے۔
ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں حمید اختر پر گفتگو کرتے ہوئے اصغر ندیم سید نے کہا کہ حمید اختر ترقی پسند تحریک کے آخری سپاہی اور کارکن اور چلتی پھرتی سماجی اور ثقافتی تاریخ تھے۔ ان کے بقول حمید اختر ایک کہانی کار بھی تھے اور کسی منجھے ہوئے داستان گو کی طرح یادیں بیان کرنے کا ہنر جانتے تھے۔
صابر بدر جعفری نے اردو کے پہلے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی جب کہ صاحب ِ صدر پیرزادہ قاسم نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت اور فن پر گفتگو کی۔
اردو کے صاحبِ طرز شاعر اور نقاد میراجی کے سوویں جنم دن کی مناسبت سے کانفرنس کا ایک سیشن ان سے منسوب تھا جس میں مقررین نے میرا جی کے فن کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔
مقررین کا کہنا تھا کہ میرا جی کے فن سے زیادہ ان کی شخصیت پر گفتگو کی گئی اور ان کی ادبی جہات کا سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیا گیا۔ وہ ایک بڑے نثر نگار بھی تھے جب کہ جدید نظم کی تفہیم میں بھی انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔
نشست کے صاحبِ صدر شمیم حنفی نے کہا کہ میرا جی جدید اردو نظم کے بانی ہیں لیکن ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف بہت بعد میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف 37 برس کی عمر پانے والے میرا جی نے زندگی اور وقت کی سچائی کو دریافت کرنے کی کوشش کی اور انہیں اس سفر میں نہ قاری کی فکر تھی اور نہ نقاد کی۔
شمیم حنفی نے میراجی کی بعض نظمیں بھی پیش کیں۔
کانفرنس کے تیسرے دن جنوبی ایشیا کے تناظر میں'پائیدار علاقائی امن اور تخلیق کاروں کا کردار' کے موضوع پرمذاکرہ ہوا جس میں پر وفیسر شمیم حنفی، انتظار حسین، غازی صلاح الدین، پروفیسر جعفر احمد، ارشد محمود اور وسعت اللہ خان شریک تھے۔
شرکائے گفتگو نے جنوبی ایشیا میں قیامِ امن اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اہلِ قلم اور دانشوروں کے کردار پر روشنی ڈالی اور اس ضمن میں کئی اقدامات تجویز کیے۔
تیسرے دن کی دوسری نشست ' ذرائع ابلاغ- چند غور طلب پہلو' کے عنوان سے ہوئی جس میں لندن سے آئے ہوئے سینئر صحافی اور براڈ کاسٹر آصف جیلانی، معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی، مسعود اشعر، سرمد صہبائی، اخلاق احمد، احفاظ الرحمن ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ذرائع ابلاغ کی تاریخ، کردار اور رویوں پر اظہارِ خیال کیا۔
کانفرنس میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی شخصیت پر 'عظیم منٹو کی صدی' کے عنوان سے نشست کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس نشست میں انتظار حسین، زاہدہ حنا، رئیس فاطمہ ، شاہدہ حسن، ایم خالد فیاض اور ڈاکٹر ضیا ء الحسن نے منٹو کی شخصیت کی ادبی جہات پر تفصیلی گفتگو کی۔
مذکورہ نشستوں کے علاوہ کانفرنس میں شاعرِ عوام حبیب جالب مرحوم کی یاد میں خصوصی تقریب اور معروف براڈ کاسٹر ضیا محی الدین اور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے اعزاز میں علیحدہ علیحدہ تقاریبِ سپاس بھی منعقد ہوئیں۔
کانفرنس میں 'دو شاعر، ایک شام' کے عنوان سے اردو کے معروف مزاحیہ شاعر انور مسعود اور امجد اسلام امجد کے ساتھ ایک شام کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں دونوں شعرائے کرام نے اپنےاپنے مخصوص انداز میں مزاحیہ اور رومانوی شاعری سنا کر حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔
کراچی کی کئی معتبر سیاسی و سماجی اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہیں۔ کانفرنس میں پیپلز پارٹی سندھ کے سیکریٹری جنرل تاج حیدر اور معروف اداکارہ زیبا بختیار نے اپنے تاثرات بیان کیے۔
کانفرنس کے چار روز آرٹس کونسل میں میلے کا سا سماں رہا اور خوب گہما گہمی رہی۔
کانفرنس کی خاص بات اس میں عوام و خواص کی بڑی تعداد میں شرکت تھی جس سے اس تاثر کی نفی ہوئی کہ لوگوں کو اب علم و ادب سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔