یوکرین کے مشرقی ڈونباس کے علاقے میں ہفتے کو جھڑپوں میں اس وقت شدت آ گئی جب روسی فورسز نے لسچانسک شہر پر بمباری میں اضافہ کر دیا۔
دارالحکومت کیف پر قبضہ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد روس کی جانب سے اس صنعتی علاقے کو نشانہ بنا رہا ہے اور یہ شہر روسی فورسز کی تازہ ترین کارروائیوں کا مرکز بن گیا ہے۔
یوکرین میں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اُنہوں نے شہر کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
علیحدگی پسندوں کے ترجمان آندرے ماروچکو نے نیوز ایجنسی ‘تاس’ کو بتایا کہ لوگانسک میں علیحدگی پسندوں اور روسی افواج نے آخری اسٹرٹیجک چوٹیوں پر قبضہ کر لیا ہے جس سے ان کے بقول اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ لسچانسک کو مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا گیا ہے۔
یوکرینی فوج نے لسچانسک شہر کو گھیرے میں لیے جانے کے دعووں کی تردید کی ہے۔ تاہم یوکرینی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ شہر کے اطراف میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
یوکرین کے نیشنل گارڈ کے ترجمان رسلن موزچک نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ لسچانسک کے اطراف شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ ان کے بقول شہر کو گھیرے میں نہیں لیا گیا اور شہر یوکرینی فوج کے کنٹرول میں ہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لسچانسک سے واپس آنے والے ایک فوجی نے خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ روس یقینی طور پر ان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہ رہا ہے اور ان کے مطابق ہو سکتا ہے کہ اس سے کچھ لوگ متاثر ہوئے ہوں لیکن یوکرینی فوج کا مورال بلند ہے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے ہفتے کی رات کو کیے گئے خطاب میں عوام پر زور دیا کہ وہ اپنے عزم کو برقرار رکھیں اور جارحیت کرنے والوں کا مقابلہ کریں تاکہ ان کے بقول ہر روسی کو یاد رہے کہ یوکرین کو توڑا نہیں جا سکتا۔
SEE ALSO: امریکہ کا یوکرین کے لیے مزید 82 کروڑ ڈالر کی عسکری امداد کا اعلانزیلنسکی کا کہنا تھا کہ اس جنگ کے دوران فرنٹ لائن علاقوں سے بہتری کی خبریں آ رہی ہیں تاہم جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے جنگ کی شدت میں مختلف مقامات پر اضافہ ہو رہا ہے۔
زیلنسکی نے کہا" ہمیں فوج اور رضا کاروں کی مدد کرنی چاہیے اور ان لوگوں کی مدد کرنی چاہیے جو اس موقع پر اکیلے رہ گئے ہیں۔"