امریکہ کے صدارتی انتخابات سے قبل ڈیموکریٹک امیدوار ہلری کلنٹن اور ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین تیسرا اور آخری مباحثہ بدھ کو ریاست نواڈا کے شہر لاس ویگاس میں ہوا جس میں دونوں کی طرف سے ایک بار پھر تندو تیز بیانات سامنے آئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ فی الحال یہ نہیں بتائیں گے کہ وہ آٹھ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج تسلیم کریں گے یا نہیں۔ اس سے یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ نتائج کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے انتظار کریں گے کہ آیا نتیجہ قانونی تھا یا نہیں۔
اس پر ہلری کلنٹن نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "یہ ہماری جمہوریت کے بارے میں گری ہوئی بات کر رہے ہیں اور میرے لیے یہ حیران کن ہے کہ دو بڑی جماعتوں سے میں ایک کے امیدوار اس طرح کی پوزیشن لیں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ماضی میں اپنے ایک ٹی وی شو کو ایمی ایوارڈ نہ دیے جانے پر بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ فیصلہ ناانصافی پر مبنی تھا۔
اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ "مجھے یہ ایوارڈ ملنا چاہیے تھا۔"
آخری مباحثے میں سابقہ دو مباحثوں کی نسبت زیادہ بحث پالیسی امور پر ہوئی لیکن ساتھ ہی ساتھ امیدواروں کی طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشی اسی طرح دیکھنے میں آئی جیسے مہم یا پہلے مباحثوں پر دیکھی گئی تھی۔
ٹرمپ نے الزام عائد کیا کہ کلنٹن کی صدارتی مہم نے ان کے خلاف جنسی رجحات کے الزامات کے لگانے والی خواتین کی منصوبہ بندی کی۔
انھوں نے ان تمام الزامات کو "صریح جھوٹ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "میرے خیال میں یا تو وہ خواتین شہرت چاہتی تھیں اور کلنٹن کی مہم نے ان کے لیے یہ انتظام کیا اور میرا خیال ہے یہ کلنٹن کی مہم ہی ہے جس نے یہ کیا۔"
ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ یہ خواتین دوسرے مباحثے کے بعد سامنے آئیں جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ انھوں نے کبھی خواتین سے نامناسب دست درازی نہیں کی۔
"ڈونلڈ سمجھتے ہیں کہ وہ خواتین کی بے عزتی انھیں بڑا بناتی ہے۔ وہ ان خواتین کے وقار کے منافی کرتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ خواتین یہ جانتی ہیں کہ اس طرح کے سلوک سے کیا محسوس ہوتا ہے۔"
دونوں امیدواروں کے درمیان اس حد تک تناؤ دیکھنے میں آیا کہ نہ تو انھوں نے مباحثے کے آغاز پر نہ ہی اختتام پر ایک دوسرے سے مصافحہ کیا۔
کلنٹن نے الزام عائد کیا ٹرمپ نے روس کے راہنما کو امریکی فوج اور انٹیلی جنس ماہرین پر فوقیت دی لیکن اس الزام کو ریپبلکن امیدوار نے فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے امریکی حکومت کے اس موقف کو بھی ماننے سے انکار کیا کہ ماسکو امریکی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
ٹرمپ نے پوتن کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلق کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں کسی بھی طرح کی غیر ملکی مداخلت قابل مذمت ہے۔
ریپبلکن امیدوار نے اپنی حریف پر تارکین وطن سے متعلق موقف پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ "کھلی سرحدوں" کی پالیسی چاہتی ہیں، تاہم کلنٹن نے اس سختی سے مسترد کردیا۔
دونوں امیدواروں سے ٹیکسوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ٹیکسوں میں کٹوتی اور صحت عامہ کے سہل قانون کو دوبارہ نافذ کریں گے، تاہم انھوں نے اس بارے میں کوئی پالیسی واضح نہیں کی۔
کلنٹن نے کہا کہ وہ سوشل سکیورٹی ٹرسٹ پر مزید وسائل صرف کریں گی جو کہ امیروں پر ٹیکسوں میں اضافے اور دیگر ذرائع سے حاصل کیے جائیں گے۔
خارجہ پالیسی پر کلنٹن کا موقف تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے خلاف ہیں تاہم انھوں نے شام کو "نو فلائی زون" قرار دینے کی حمایت کی۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ہلری کلنٹن تیسرے اور آخری مباحثے میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ پر سبقت لے گئیں۔