بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک مقامی رہنما وِکرم سنگھ رندھوا کے خلاف مسلمانوں کے مذہبی عقائد کا مذاق اُڑا کر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور سماج کے مختلف طبقات کے درمیان دشمنی، نفرت اور عداوت کا احساس پیدا کرنے کے الزام میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
وِکرم سنگھ رندھوا نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ کشمیری مسلمانوں کی رگوں میں پاکستانی خون دوڑ رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے دبئی میں کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی جیت پر جشن منایا تھا۔
انہوں نے کشمیری مسلمانوں کے لیے کٹھ ملے کی توہین آمیز اصطلاح استعمال کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ ان کی زندہ کھال کھینچی جائے اور جن طلبہ نے پاکستان کی کامیابی پر جشن منایا تھا، نہ صرف اُن کے داخلے اور ڈگریاں بلکہ اُن کی شہریت بھی منسوخ کی جائے۔
انہوں نے کشمیری مسلم لڑکیوں کو بھی جشن میں شامل ہونے پر برا بھلا کہا تھا۔
وِکرم سنگھ رندھوا نے کہا تھا کہ 22، 23 برس کی یہ کشمیری لڑکیاں جموں میں برقعے پہن کر نظر آتی ہیں، البتہ کشمیر میں پاکستان کی جیت پر جشن مناتے ہوئے اپنی جیکٹ اُتار کر پھینک دیتی ہیں اور پھر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتی ہیں۔
وِکرم سنگھ رندھوا نے سڑکوں پر نماز ادا کرنے پر مسلمانوں کا مذاق اڑایا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ بھارت میں تین طلاق ایک ساتھ کہنے پر پابندی کا قانون نافذ ہونے سے پہلے وہ (یعنی مسلمان) اپنی بیویوں کو فون پر طلاق دیتے تھے۔ ارے نماز بھی واٹس اپیپ پر ادا کرو۔ سڑکوں پر اپنے آپ کو ٹیڑھا کیوں کرتے ہو۔
وِکرم سنگھ رندھوا کے اس بیان کی ویڈیو وائرل ہوئی تو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا۔ مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں نے اُن کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔
جموں کے ایک وکیل مظفر علی شاہ نے شہر کے بہو فورٹ پولیس اسٹیشن میں وِکرم سنگھ رندھوا کے خلاف باضابطہ تحریری شکایت جمع کرائی۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ بی جے پی کے ایک سابق رکنِ اسمبلی کے، جس نے کشمیریوں کے قتلِ عام اور ان کی زندہ کھال اُتارنے کے لیے کہا تھا، خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ البتہ جموں و کشمیر کے طلبہ پر محض اس لیے غداری کا الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے جیتنے والی ٹیم کو شاباشی دی تھی۔ بھارت واقعی تمام جمہوریتوں کی ماں ہے۔
منگل کی شام بی جے پی کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے وِکرم سنگھ رندھوا کو پارٹی کے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر بی جے پی کے سبھی عہدوں اور ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا ہے۔
قبل ازیں بی جے پی نے وِکرم سنگھ رندھوا کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ اور نامناسب قرار دے کر اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پارٹی کے ایک ترجمان نے وائس آف مریکہ کو بتایا کہ وِکرم سنگھ رندھوا کا بیان غیر ضروری، نامناسب اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ترجمان نے کہا کہ وِکرم سنگھ رندھوا نے اس سے پہلے بھی ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا تھا جس پر پارٹی کی انضباطی کمیٹی نے اُن کے نام اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا اور اس پر کارروائی جاری ہے۔
پولیس نے گزشتہ ہفتے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے دو سرکاری میڈیکل کالجوں کے طلبہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ میں پاکستان کی جیت اور بھارت کی شکست پر جشن منانے کی پاداش میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کے تحت مقدمات درج کیے تھے۔
الزامات ثابت ہونے پر ملزم کو سات سال تک کی قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
حکام نے بتایا تھا کہ حکومت نے سری نگر کے شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور گورنمنٹ میڈیکل کالج کے ہوسٹلوں میں مقیم طلبہ کی طرف سے ٹیلی ویژن پر میچ دیکھنے کے دوران اور پھر پاکستانی ٹیم کی کامیابی پر پاکستان کے حق میں اور ملک دشمن نعرے لگانے اور آتش بازی کا اہتمام کرنے کا سنجیدہ نوٹس لیا ہے۔
طلبہ کے خلاف سری نگر کے دو تھانوں میں درج مقدمات میں اگرچہ کسی ملزم کا نام درج نہیں تھا۔ البتہ پولیس ذرائع نے بتایا تھا کہ جشن میں شریک ہونے والے کئی طلبہ کی شناخت کی گئی ہے۔ ممکنہ طور پر ان کے خلاف لگائے گئے الزامات ثابت ہونے پر انہیں غیر موزوں قرار دے کر تعلیمی اداروں میں ان کے داخلے منسوخ کیے جائیں گے۔
دوسری جانب شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے حکام کی طرف واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی نے رپورٹ میں الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے کہ کالج کے ہوسٹل کے مکینوں نے پاکستان کی جیت کے بعد ہلڑ بازی کی تھی یا بھارت کے خلاف نعرے لگائے تھے۔
کشمیر ہی کے ایک اور میڈیکل کالج میں کام کرنے والی آپریشن تھیٹر ٹیکنِشن صفیہ مجید کو واٹس ایپ پر ایک ایسی ویڈیو اپ لوڈ کرنے پر نوکری سے برطرف کیا گیا ہے جس میں بعض کرکٹ شائقین کو پاکستان کی کامیابی پر جشن مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر برج موہن نے کہا کہ صفیہ مجید کی یہ حرکت ملک سے بے وفائی لگتی ہے۔ ہمارے ادارے میں کسی کو بھی ملک سے بے وفائی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اسی الزام میں بھارت کی ریاست راجستھان کے ایک نجی اسکول کی استانی نفیسہ عطاری کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔
جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع راجوڑی کے نصف درجن شہریوں کو پاکستان کی جیت پر جشن میں شامل ہونے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ ماہ 24 اکتوبر ہی کی رات کو پاکستان کے میچ جیتنے کے فوری بعد بھارت کی ریاست پنجاب کے دو کالجوں میں زیرِ تعلیم کشمیری مسلمان طلبہ کو مبینہ طور پر مارا پیٹا گیا تھا اور ان کے ہاسٹل کے کمروں کو غیر مقامی طلبہ کے گروپوں نے توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔
کشمیری طلبہ نے دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آور بھارتی ریاستوں بہار، اتر پردیش اور ہریانہ کے اُن کے ساتھی طلبہ تھے جب کہ مقامی اور دیگر پنجابی طلبہ نے انھیں بچایا۔
تاہم مقامی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہیں جوابی شکایات موصول ہوئی ہیں کہ جب میچ جاری تھا تو کشمیری طلبہ نے خوشی کا اظہار کیا اور جب پاکستانی کھلاڑی رنز بنا رہے تھے اور وکٹیں لے رہے تھے تو آزادی کے حق میں نعرے بھی لگائے گئے اور جب میچ ختم ہوا تو یوپی اور بہار کے طلبہ کشمیری طلبہ کے کمروں میں گئے اور ان میں ہاتھا پائی ہوئی۔
ایک پولیس افسر سوپن شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں جانب سے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے جب کہ پولیس اور کالج حکام کے سامنے معذرت کی ہے جس سے معاملہ حل ہو گیا ہے۔
اُدھر بھارت کی ایک اور ریاست اُتر پردیش کے شہر متھرا کے ایک وکیل مدھو ون دت چترویدی نے پاکستان کی کامیابی پر جشن منانے کے الزام میں گرفتار تین کشمیری طلبہ کا مقدمہ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
آگرہ کے ایک کالج میں زیرِ تعلیم ان طلبہ پر پولیس نے حکمران جماعت بی جے پی کے ایک مقامی رہنما گورو رجاوت کی شکایت پر نفرت پھیلانے اور ریاست مخالف سرگرمیوں کا ارتکاب کرنے کے الزامات میں دو مقدمات درج کیے ہیں البتہ بعد میں اُتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پولیس کو ہدایت کی کہ پاکستان کی جیت پر خوشی منانے والوں کے خلاف ملک سے غداری کے قانون کے تحت مقدمے درج کیے جائیں جس کے بعد مقامی وکلا نے کشمیری طلبہ کے کیس کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
گرفتار طلبہ عنایت الطاف، ارشد یوسف اور شوکت احمد گنائی کے والدین نے بتایا کہ وہ پیر کو ان سے آگرہ کی مرکزی جیل میں ملے تھے جہاں انہیں کوئی بڑی مشکل درپیش نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے تینوں کو ایک الگ بیرک میں رکھا گیا ہے۔
وکیل چترویدی نے کہا کہ جیل میں بند طلبہ کے اہل خانہ نے ان سے جمعے کی شام رابطہ قائم کیا تھا اور یہ درخواست کی تھی کہ وہ عدالت میں اُن کا دفاع کریں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے ان بچوں کا کیس ان کے والدین کی استدعا پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مدھو ون دت چترویدی عتیق الرحمٰن، مسعود احمد اور محمد عالم کے کیس کی بھی پیروی کر رہے ہیں جنہیں ریاست کیرالا کے صحافی صدیق کپان کے ساتھ اُتر پردیش کی پولیس نے گزشتہ سال اکتوبر میں اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ ریاست کے ضلع ہتھراس میں 14 ستمبر 2020 کو ایک 19 سالہ دلت لڑکی کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ کے بعد ہلاک ہونے والی لڑکی کے اہلِ خانہ سے ملنے جا رہے تھے۔
ان چاروں پر اتر پردیش کی پولیس نے غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کے تحت غداری کا مقدمہ درج کیا تھا۔
علاوہ ازیں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک الگ تحقیقاتی ادارہ (ایجنسی) قائم کرنے کی منظوری دی ہے۔
سری نگر میں حکومت کے محکمۂ داخلہ کے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایجنسی جسے ' اسٹیٹ انوسٹی گیشن ایجنسی' کا نام دیا گیا ہے، بھارت کی قومی تحقیقات ایجنسی این آئی اے اور دیگر قومی وفاقی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور ریاست میں پیش آنے والے دہشت گردی کے تمام ایسے واقعات کی تحقیقات کرے گی جن کے سلسلے میں رجسٹر کئے گئے کیسز کو این آئی اے اپنے ذمے لینے سے انکار کر دے۔