طارق عزیز بھی خاموشی سے رخصت ہو گئے اور اپنے پیچھے بے شمار خوبصورت یادیں چھوڑ گئے۔ ہر شخص اپنے اپنے طور پر انہیں یاد کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ایک عظیم فن کار تھے۔ ان کی خوبیاں گنواتے جائیں تو فہرست بہت طویل ہو جائے گی۔
میں ان سے کسی تعلق کا دعویٰ تو نہیں کرسکتا، بس کبھی کسی تقریب یا پی ٹی وی اسٹیشن پر ان سے سلام دعا ہو جاتی تھی۔ مگر ان سے جڑی ایک یاد ایسی ہے جس نے میری فن کارانہ زندگی کو یکسر بدل دیا اور جسے میں بھلانا چاہوں بھی تو کبھی بھلا نہیں سکتا۔
لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے کیا تھا جہاں وہ اناؤنسر بھی تھے اور صدا کاری بھی کرتے تھے۔
طارق عزیز کا یہ تاریخی جملہ "آواز بیچتا ہوں اور پیٹ پالتا ہوں" ہر اُس شخص کو یاد ہو گا جو ریڈیو پاکستان راولپنڈی گیا ہو یا وہاں کام کیا ہو۔
وہ کچھ عرصہ راولپنڈی ریڈیو اسٹیشن پر اناؤنسر رہے لیکن ان کی صداکاری، ان کی آواز، ان کا انداز، ان کی باتیں سب گویا وہاں کے در و دیوار پر نقش ہیں۔
لوگ بتاتے تھے کہ وہ جذبات سے بھر پور ایک نوجوان آرٹسٹ تھے جو ایک مجنونانہ کیفیت میں اشعار پڑھتا، غزلیں گنگناتا اور اپنی بھاری بھرکم آواز میں مکالمے ادا کرتا نظر آتا۔
وہ اپنی ہی دنیا میں کھویا ہوا کسی افسانے کا کردار، کسی فلم کا ناکام ہیرو، ناکام عاشق تھا جس کی بے چین روح اسے سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی اور شاید یہی سیمابی کیفیت، یہ جنون اسے راولپنڈی کی خاموش اور بے رونق دنیا سے لاہور کے ہیجان خیز جہان میں لے گیا۔
لاہور میں ہر طرف روشنی تھی، جگمگاتی فلمی دنیا تھی، ہر گلی فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، موسیقاروں اور گلوکاروں سے بھری پڑی تھی۔ لاہور کے ریستورانوں اور چائے خانوں میں شاعر اپنی شامیں گزارتے تھے اور جہاں کے کونوں کھدروں میں موسیقی اور حسن بکھرا پڑا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ جگہ یقیناً طارق عزیز کی تسکین کا سامان تھی اور شاید اسی لیے وہ یہاں کی دنیا میں گم ہو گئے اور پھر نمودار ہوئے تو ایسے کہ شہرت اور عروج کی بلندیوں پر پہنچ کر آسمان فن پر جگمگا رہے تھے۔ وہ سب کچھ جس کی کوئی فن کار تمنا اور خواہش کر سکتا ہے، وہ ان کے قدموں میں تھی۔
یہ ایک طویل، کٹھن اور مشکل سفر تھا۔ لیکن ان کے شوق، لگن اور ان تھک محنت نے اسے ان کے لیے آسان کر دیا۔
قسمت کی دیوی ان پر مہربان تھی۔ وہ لاہور ریڈیو اسٹیشن پر اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کر دیا اور یوں وہ اس کے پہلے اناؤنسر اور پہلے نیوز کاسٹر بن گئے۔ کچھ عرصہ ٹی وی پروڈیوسر بھی رہے مگر ان کی سیلانی طبیعت نے انہیں یہاں بھی چین نہ لینے دیا اور وہ بڑی اسکرین پر اپنا جلوہ دکھانے چل پڑے۔
یہاں کچھ کامیاب، کچھ ناکام رہے۔ لیکن پھر ٹی وی کا پروگرام 'نیلام گھر' شروع ہوا جو ان کی کامیابی کی ضمانت، ان کی شہرت اور عروج کی منزل ٹھیرا۔ اسی پروگرام کی بدولت وہ سیاست اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے مگر لوٹ کر پھر 'نیلام گھر' ہی کی طرف واپس آئے کہ یہ ہی ان کے مقدر کا درخشاں ستارہ تھا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ کئی برس بعد ہمیں بھی اسی اسٹوڈیو، اسی مائیکروفون کے سامنے بیٹھنے اور اناؤنسمنٹ کرنے کا شرف حاصل ہوا جہاں طارق عزیز اور پھر اظہر لودھی اپنی آواز کے رنگ بکھیرتے تھے۔
انیس سو تریسٹھ میں میں بچوں کے پروگرام کی وساطت سے پنڈی اسٹیشن کے اسٹودیوز میں داخل ہوا۔ کچھ عرصے بعد ہماری خواہش بھی رنگ لائی اور ہم بھی ریڈیو اناؤنسر ہو گئے۔ اور پھر انہیں عظیم فن کاروں کی پیروی کرتے ہوئے ٹیلی ویژن کی حدود میں دبے پاؤں داخل ہوئے۔
اور پھر ایک یادگار لمحہ آیا جس نے ہماری زندگی کو ایک نیا موڑ دے دیا۔ ہوا یوں کہ بھٹو صاحب اقتدار میں آ گئے۔ ان کی جدوجہد پر مبنی ایک دستاویزی فلم تیار کی گئی اور اس کی پس پردہ آواز کے لیے ہمارا انتخاب کیا گیا۔
ہم بہت خوش تھے کہ یہ بہت بڑا موقع ہے اور اس سے آگے بھی مواقع ملیں گے۔ پروڈیوسر فیاض الحق تھے جو روز ہمیں بلاتے۔ مگر کبھی اسکرپٹ تیار نہ ہوتا کبھی فلم۔ کئی دن گزر گئے۔ ایک دن فیاض صاحب نے یہ خبر سنائی کہ فیصلہ ہوا ہے کہ اب طارق عزیز اس کی پس پردہ آواز دیں گے۔
یاد رہے کہ طارق عزیز اب سیاست میں بھی آ گئے تھے اور بھٹو کے بہت قریبی ساتھیوں میں شامل تھے۔ بلکہ خبریں یہ تھیں کہ وہ کسی وزیر یا مشیر کے عہدے پر فائز ہونے والے ہیں۔ ویسے بھی وہ بہت سینئر فن کار تھے لہٰذا ان کا حق بنتا تھا اور صورتِ حال ایسی تھی کہ ان کو انکار کرنے کی کسی میں جرأت بھی نہیں تھی۔
لیکن یہ خبر ہم پر بجلی بن کر گری۔ کم عمری تھی اور برداشت بھی کم تھی، اس لیے بہت افسردہ ہوئے۔ ساری امیدوں اور خوشیوں پر اوس پڑ گئی اور یہ بھی غم کہ ایک اچھا معاوضہ ملنے والا تھا جس کے خرچ کرنے کے منصوبے بنا لیے تھے۔ وہ سب بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔
دل ہی دل میں اس زیادتی پر طارق عزیز بہت برے لگنے لگے۔ شاید ہمارے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا اور آنکھیں بھی ڈبڈبا رہی تھیں۔ ایک مسلسل خاموشی تھی۔ اس کیفیت کو ہمارے پروڈیوسر فیاض الحق نے بھانپ لیا جو ایک انتہائی نفیس اور ہمدرد انسان تھے۔ مجھے ہمیشہ ٹی وی پر مواقع فراہم کرتے رہتے تھے اور چوں کہ وہ پہلے ریڈیو پروڈیوسر رہ چکے تھے اس لیے بھی وہ بہت خیال کرتے تھے۔
خیر وہ خاموشی سے اٹھ کر کمرے سے چلے گئے۔ اب میں عجیب گو مگو کی کیفیت میں تھا کہ بیٹھوں کہ چلا جاؤں۔ لیکن انہیں بتائے بغیر جانا بھی مناسب نہیں تھا۔ اس لیے سوچا کہ کچھ دیر انتظار کر لیتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ آ گئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ تم جا کر جی ایم (جنرل مینیجر) سے مل لو۔
اس وقت پنڈی اسٹیشن کے جنرل مینیجر ظفر صمدانی مرحوم تھے جو ایک سابق صحافی، انتہائی قابل اور مرنجاں مرنج انسان تھے۔
میں نے سوال کیا کہ ان سے کیوں ملنا ہے؟ تو فیاض صاحب نے بتایا کہ میں نے جی ایم سے صاف کہہ دیا ہے کہ میں نے اس بچے سے کانٹریکٹ سائن کرایا ہے۔ وہ تین چار دن سے آرہا ہے اور یہ اُصول کے خلاف ہے کہ اب میں اسے انکار کردوں۔ آپ اسے ہی کام دیں۔
میں نے کہا کہ فیاض صاحب کوئی بات نہیں، پھر صحیح۔ کہنے لگے: نہیں۔ تم جاؤ اور ان سے مل لو۔
خیر میں سر جھکائے صمدانی صاحب کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ زیادہ تر پنجابی میں بات کرتے تھے۔ دیکھتے ہی بولے "یار او سوری تینوں پتا اے کہ۔۔۔" (یار تمہیں پتا ہے کہ وہ اچانک فیصلہ ہوا کہ طارق پڑھے گا۔ تو کوئی بات نہیں۔ تم ایسا کرو نیوز روم میں مشتاق کے پاس چلے جاؤ۔ وہ جو کام دے وہ کر دو۔
مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں بھاگتا ہوا مشتاق صاحب کے سامنے پیش ہو گیا جو نیوز ایڈیٹر تھے۔ وہ بنگالی تھے اور بہت عمدہ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ سمجھے جی ایم نے بھیجا ہے تو کوئی تگڑی سفارش ہے۔ اس لیے بڑی محبت سے پیش آئے۔ کہنے لگے، "بیٹا آپ نے ہمارا نیوز کا یہ نیا فارمیٹ دیکھا ہے جس میں خبرنامے میں پیچھے فلموں کی پس پردہ کمنٹری کرنا ہوتی ہے اور موسم کا حال بھی پڑھنا ہوتا ہے۔ آپ کر لیں گے؟"
میں نے کہا جی ضرور کر لیں گے۔ تو جناب ہم نے بخوشی یہ کام صحیح طور پر انجام دے دیا۔ نیوز روم میں آئے تو انہوں نے شاباش دی اور کہا کہ کل بھی آجائیں۔ یہ سلسلہ کوئی ایک ہفتے چلتا رہا اور ہم روز کمنٹری کرتے رہے۔ پھر ہمارے نیوز پروڈیوسر نے مشتاق صاحب سے کہا کہ کیوں نہ باقاعدہ ایک شیڈول بنا لیں۔
ہمارے ساتھ کچھ اور بھی لوگ پڑھنے والے تھے لہذٰا ایک مہینے کا شیڈول بنا لیا گیا اور ہم ہفتے میں تین چار دن کمنٹری پڑھنے لگے۔ چند مہینے یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر انہیں خیال آیا کہ پانچ منٹ کا ایک بلیٹن شام کے وقت شروع کیا جائے۔ اس میں بھی ہمارا نام شامل کر لیا گیا۔
یہ سلسلہ کامیابی سے چل رہا تھا کہ ایک دن مینیجنگ ڈائریکٹر اسلم اظہر اسٹوڈیو میں آگئے اور ہمیں خبریں پڑھتے دیکھا تو بہت تعریف کی اور پھر نیوز روم میں جا کر ڈائریکٹر نیوز زبیر علی سے کہا کہ آپ اس لڑکے سے خبرنامہ کیوں نہیں پڑھاتے؟
لو جی! حکمِ حاکم۔۔۔ ہماری تو لاٹری نکل آئی۔ وہ دن اور آج کا دن، سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا۔۔۔
اس کے بعد بہت مرتبہ طارق بھائی سامنے آئے تو جی چاہا کہ جاکر ان کا شکریہ ادا کروں کہ اگر اس دن وہ بھٹو کی فلم کی کمنٹری نہ کرتے تو شاید مجھے نیوز روم جانے کا موقع نہ ملتا اور یہ سلسلہ شروع نہ ہوتا یا شاید کسی اور طرح موقع ملتا۔ بہر حال میں ہمیشہ ان کا شکر گزار رہا کہ اگر وہ اس دن اپنی آواز نہ بیچتے تو شاید میں اپنا پیٹ نہ پال سکتا۔