کراچی میں جمعہ کو پہلا روزہ اور جمعرات کو پہلی نماز تراویح ادا کی گئی، جبکہ پہلے افطار کی گہما گہمی نے شہر کی سالوں پرانی روایات کو آگے بڑھایا۔ ایک روز پہلے جن سڑکوں پر رات گئے تک ٹریفک بری طرح جام تھا وہاں آج صبح سے ہی سناٹوں کا راج رہا۔ سرکاری دفاتر میں ہاف ڈے تھا اس لئے شام کے اوقات میں بھی سڑکیں خالی خالی رہیں، یوں پہلا روزہ مجموعی طور پر امن و امان کے ساتھ گزر گیا۔
ادھر اسلام آباد میں ہونے والی افطار پارٹی سے سیاسی جماعتوں میں نئے شکوے شکایات پیدا ہوئے۔’سیاسی افطار‘ پاکستانی پیپلز پارٹی کی جانب سے دیا گیا جس میں جماعت اسلامی نے شرکت سے انکار کیا، جبکہ ن لیگ کا کہنا تھا کہ اسے دعوت ملی ہی نہیں۔ ان گلے شکوں نے ہی ٹی وی کے خبروں ناموں میں شہ سرخیوں میں جگہ پائی۔
آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کی جانب سے پولیس حکام کو پہلے ہی یہ ہدایات جاری کردی گئی تھیں کہ رمضان کے پورے مہینے شہر میں سیکورٹی کے کنٹی جینسی پلان پر سختی سے عمل درآمد جاری رکھا جائے۔ شہر کے تمام تھانوں کو جمعرات کو ہی یہ پلان ارسال کردیا گیا ہے تاکہ وہ اس پر ہر صورت عمل درآمد یقینی بنائیں۔
شہر میں اس وقت 4ہزار تین سو 18مساجد، 459امام بارگاہیں اور ایک ہزار تین سو 54مدارس قائم ہیں جن کی خصوصی سیکورٹی کے لئے غیر معمولی اقدامات کئے گئے ہیں۔
سرکاری خبررساں ادارے، اے پی پی کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو کا کہنا ہے کہ رمضان بھر تربیت یافتہ اہلکار جگہ جگہ تعینات رہیں گے۔
غیر معمولی سیکورٹی انتظامات کے تحت ہی شہر میں تراویح کے سب سے زیادہ انتظامات خالق دینا ہال ایم اے جناح روڈ پر نظر آئے جہاں تراویح کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ جمعرات اور جمعہ کی دونوں تراویح کے وقت یہاں لوگوں کی بڑی تعداد عبادت میں مصروف رہی۔
شام کے اوقات میں افطاری کا سب سے بڑا اجتماع میمن مسجد بولٹن مارکیٹ پر دیکھنے کو ملا۔ مسجد کے وسیع و عریض صحن میں سینکڑوں افراد نے ایک ساتھ ایک ہی جگہ افطار کیا۔ ناظم آباد سے میمن مسجد آکر افطار کرنے والے ایک روزیدار نے وی او اے کو بتایا کہ ’یہ سماں دیدنی ہوتا ہے۔۔سینکڑوں لوگ بیک وقت صحن میں اور روایتی انداز میں روزہ کھولتے ہیں۔ مجھے تو یہ منظر دیکھ کر مسجد نبوی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اسی لئے میں رمضان میں ایک آدھ مرتبہ یہیں آکر افطار کرتا ہوں۔‘
مساجد کے علاوہ شہر کے تقریباً ہر راستے پر بسوں اور دیگر گاڑیوں میں سفر طے کرنے والوں کو افطار کے لئے مفت سامان بانٹا جاتا ہے۔ کھجور، پانی، فروٹ، جوس، پکوڑے، چارٹ، دہی بڑے ۔۔غرض کہ ہر چیز مفت تقسیم کی جاتی ہے۔ لوگ رضاکارانہ طور پر آپس میں چندہ کرتے اور روزہ داروں میں اشیائے خوردو نوش تقسیم کرتے ہیں۔
لیاقت آباد، ایم اے جناح روڈ، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، نیوکراچی، اورنگی، ناگن چورنگی، نارتھ کراچی ۔۔۔غرض کہ انگنت علاقوں میں افطار سے کچھ پہلے افطاری کے مفت اسٹالز بھی لگائے جاتے ہیں۔ مسافروں، غریبوں اور بے گھر افراد کو ان اسٹالز پر روزہ کھولنے کی سہولت دستیاب ہوتی ہے اور ان اقدامات کی وہ بھرپور انداز میں تعریف بھی کرتے ہیں۔
ایسی ہی ایک خاتون مسافر بلقیس جہاں نے بتایا کہ ’حالیہ سالوں کے دوران روزہ داروں کے لئے افطار کے سرعام انتظامات میں اضافہ ہوا ہے اور جیسے جیسے ماہ و سال آگے بڑھ رہے ہیں اس کار خیر میں بہتری آرہی ہے۔‘
بڑی شخصیات کا بڑا افطار
میگا سٹی سے ہٹ کر دارالحکومت اسلام آباد کی بات کریں تو یہاں پہلے روزے پر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے اپنے اتحادیوں کو افطار ڈنر پر مدعو کیا۔ ایم کیو ایم، اے این پی، ق لیگ اور جے یو آئی کے رہنماوٴں نے اس میں بھرپور انداز میں شرکت کی۔
ان رہنماوٴں میں چوہدری شجاعت حسین، مولانا فضل الرحمٰن، ڈاکٹر فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی، افراسیاب خٹک، میاں افتخار حسین اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری شریک ہوئے۔جماعت اسلامی کو بھی افطار میں شرکت کی دعو ت دی گئی تھی لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔
پارٹی چونکہ سیاسی تھی۔ لہذا، سیاسی موضوعات پر گرما گرم بحث بھی ہوئی۔ موضوع سابق صدر آصف علی زرداری کے کلمات تھے۔ اختتام سے کچھ دیر پہلے پی پی پی رہنما اور سینیٹر شیری رحمٰن نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران کہا کہ پیپلز پارٹی ماضی میں بھی آمروں اور جرنیلوں کا سامنا کرتی آئی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔