ریاست الی نوائے کے دارالحکومت اسپرنگ فیلڈ کے وسط میں ریاست کی دو پرانی اور نئی عمارتوں کے گنبدوں کے سائے میں چلتے ہوئے، اس شہر میں آپ کو تاریخ کے بہت سے نشانات نظر آتے ہیں۔ یہ ریاست دو صدور کے سیاسی کیریئر کا آغاز ہے، ابراہم لنکن اور براک اوباما۔ ریاست کی پہلی مسلمان امریکی قانون ساز نبیلہ سید کو یہ خواب سا لگتا ہے
نبیلہ سید نے الینوائے سٹیٹ کیپیٹل کے داخلی دروازے پر ’’عظیم نجات دہندہ‘‘ے مجسمے کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا، ’’یہ جانناغیر حقیقی سا لگتا ہے ہے کہ ابراہم لنکن کبھی میری طرح کی پوزیشن میں تھے۔‘‘
SEE ALSO: امریکہ: نسلی آزادی کی علامت لنکن میموریل 100 سال کا ہو گیااگرچہ لنکن نے چند بلاکس کے فاصلے پر پرانے کیپیٹل کی عمارت میں اپنا نام تاریخ میں رقم کیا تھا، تاہم جب نبیلہ الینوائے ہاؤس کے فرش پر ، منتخب نمائندوں کی لکڑی کے میزوں اور چمڑے کی کرسیوں کی قطاروں کے درمیان چل رہی تھیں، تو یہ تاریخ ان کے ذہن پر نقش تھی۔
نبیلہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا، ’’ہمارے ٹور گائیڈ نے کہا کہ اس نے دراصل براک اوباما کی تصویر اسی جگہ لی تھی جہاں میں اور میرا خاندان تصویر کھنچوانے کے لیے کھڑے تھے۔لہذا، اسپرنگ فیلڈ کی اس تاریخ کے بارے میں سوچنا جس میں ہم حصہ ڈال رہے ہیں، یہ ایک ناقابل یقین سا احساس ہے۔‘‘
SEE ALSO: امریکہ میں انگلش کےعلاوہ کون سی زبانیں زیادہ بولی جاتی ہیں؟تاریخ ساز لمحہ
نبیلہ سید اور ان کے رفیق کار عبدالناصر راشد اپنی تاریخ رقم کرنے والے ہیں کیونکہ الینوائے میں 103 واں قانون ساز اجلاس شروع ہو رہا ہے۔ وہ ریاستی ایون کے لیے منتخب ہونے والے پہلے مسلمان امریکی قانون ساز ہیں۔
نبیلہ نے کہا، ’’میرے خیال میں یہ دیکھتے ہوئے کہ الینوائے میں مسلمانوں کی فی کس آبادی سب سے زیادہ ہے، میری خواہش ہے کہ یہ جلد عمل میں آئے، کیونکہ میں نمائندگی کی اہمیت کو جانتی ہوں‘‘۔
نومبر میں، سید نے ایک ریپبلکن کو شکست دے کر شکاگو سے نشست جیت لی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
سید نے کہا، ’’نہ صرف میں ڈیموکریٹ ہوں، بلکہ میں ایک حجاب پہننے والی مسلمان، بھارتی امریکی خاتون ہوں۔ ہماری اقدار، جس طرح سے ہم اپنا پیغام پہنچاتے ہیں، جس طرح سے ہم اپنی کمیونٹی کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، ہم ان چیزوں سے آگے بڑھ گئے جنہیں لوگ رکاوٹیں سمجھتے ہیں، اور ہم نے اپنے علاقے کو تبدیل کر دیاہے۔‘‘
23 سال کی عمر میں، نبیلہ سید کا شمار الینوائےکی مقننہ میں منتخب ہو نے والی اب تک کی سب سے کم عمر خواتین میں ہوتا ہے۔ الی نوائے کے اس ایوان نمائند گان میں دیگر ایسی قابل ذکر خواتین کے ساتھ اپنی مدت کا آغاز کررہی ہیں، جس کی قیادت پہلی سیاہ فام اسپیکر، ایوان کی پہلی خاتون ریپبلکن لیڈر، اور جنرل اسمبلی میں سب سے بڑا ایشیائی امریکی کاکس ہے۔
جنرل اسمبلی میں عبدالناصر راشد بھی اسی صف میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مقننہ کے لیے منتخب ہونے والے پہلے فلسطینی اور دو مسلمانوں میں سے ایک ہونے کے ناطے، میں ایسے بہت سے لوگوں کی آواز ہوں جو پسماندہ ہیں اور نمائندگی کے لیے ترس رہے ہیں۔ اور میں اس ذمہ داری کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں۔
راشد شکاگو کے ایک مضافاتی حلقہ انتخاب کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں آبادی کی بڑی تعداد لاطینی نژاد افراد پر مشتمل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ناردرن الی نوائے یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر کیکیو ہمیوٹسو کا کہنا ہے کہ’’یہ صرف غیر سفید فام چہروں کی تعدادبڑھانےکے بارے میں نہیں ہے، یہ زیادہ اہم نقطہ نظر ، حکمت عملی اور موقف کے حوالےسے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ انہیں صرف مسلم آبادی کی ہی نہیں بلکہ وسیع تر کمیونٹی سے حمایت حاصل ہوئی ہے،‘‘ ۔
وہ راشد اور سید کی کامیاب انتخابی مہموں کا کریڈٹ ان کی شناخت کو نہیں، بلکہ ووٹروں سے متعلق مسائل پر ان کی توجہ اوراپنا پیغام پہنچانے کو دیتی ہیں۔
ہمایوتسو کا کہنا تھا کہ ’’انہوں نے جن چیزوں اور پالیسیوں کے بارے میں بات کی ہے وہ تولیدی صحت، اسقاط حمل کے قانون جیسے زیادہ اہم مسائل کے بارے میں ہے۔ اور اسی طرح ایک ایسے وقت میں جب مذہبی قدامت پسندی کے سیاست پر اثر انداز ہونے میں اضافہ ہو رہا ہے، انہوں نے صنفی مسائل اور مذہبی آزادی پر بات کی ہے‘‘ ۔
راشد نے کہا، ’’میرے خیال میں میرے انتخاب اور نبیلہ کے انتخاب ، اور دوسری بہت سی چیزوں سےملنے والا سبق اور محض مسلمان ہو نا نہیں ہیں ، بلکہ یہاں سے ایک ویتنامی پناہ گزین ہوان ہوینھ جیسے لوگ ہیں جو منتخب ہوئے ہیں۔ اسی طرح منتخب ہونے والوں میں ایک کوریائی نژاد امریکی شیرون چنگ جیسے لوگ بھی ہیں‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ الی نوائے کی مقننہ میں ان لوگوں کی تعداد ہماری ریاست کے تنوع کی عکاس ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے، اور ایسی چیز جسے ہمیں اپنانا چاہیے تاکہ ہماری حکومت اپنے لوگوں کی خواہشات کی عکاسی کرتی رہے۔ میرے خیال میں جہاں ہمارے پاس ایک مضبوط صحت مند متحرک جمہوریت ہوتی ہے، وہاں ہم سب کے لیے بہتر نتائج کا حصول ہو گا۔
ہماری جمہوریت ہم پر مشتمل ہے:
راشد کہتے ہیں، ’’میرے انتخاب سے ان لوگوں کو اعتماد ملا ہے جو شاید انتخاب لڑنے میں ہچکچاتے تھے لیکن اب انہیں احساس ہے کہ وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ لوگوں نےمیرے پاس آکر کہا، کہ میں نے نہیں سوچا تھا کہ آپ جیت سکتے ہیں، اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں۔
نبیلہ کو امید ہے کہ حجاب پہننے والی دوسری خواتین اسے’ کیا ممکن نہیں ہے‘کی بجائے’ کیا ممکن ہے ‘کی ایک مثال کے طور پر دیکھیں گی۔
’’ہماری جمہوریت ہم پر مشتمل ہے‘‘۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا۔ ’’اور ہم امریکہ کو شاندار بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں‘‘۔
رپورٹ وائس آف امریکہ