اعضاء کی پیوند کاری کا پہلا آپریشن ڈاکٹر جوزف مرے اور ڈاکٹر ڈیوڈ ہیوم نے 1954ء میں بوسٹن کے بریگھم اسپتال میں کیا تھا۔ اس وقت ڈاکٹروں کا ایک ہی مقصد تھا کہ ان کے مریض کی جان بچ جائے لیکن، آج تقریباً 60 برس بعد ڈاکٹر یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ پیوندکاری کے ذریعے ناصرف مریضوں کی زندگیاں بچا سکتے ہیں بلکہ جسم کے دوسرے اہم اعضاء کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔
مردہ عورت کے رحم مادر سے پیوندکاری
نومبر 2015ء میں ریاست اوہائیو کے کلیو لینڈ اسپتال کے امراض نسواں کے ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ وہ امریکہ کی طب کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسے آپریشن کی تیاری کر رہے ہیں، جس میں مردہ عورت کے رحم مادر کو پیوند کاری (ٹرانسپلانٹ) میں استعمال کیا جائے گا۔
امریکی سرجنز نے امید ظاہر کی کہ اس طریقہ کار کی مدد سے لاکھوں بے اولاد عورتیں جو رحم مادر کی خرابیوں یا کینسر کے سبب رحم نکلوا چکی ہیں وہ باقاعدہ حاملہ ہو کر بچے پیدا کر سکیں گی۔
اس آپریشن سے قبل زندہ عطیہ دہندگان کے رحم مادر کو پیوند کاری کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ دنیا بھر میں اب تک کیے جانے والے نو آپریشن میں سے پانچ ماں اور بیٹی کے درمیان کیے گئے تھے۔
ڈاکٹروں کے مطابق اس طریقہ کار سے قبل پیوند کاری کی امیدوار کو ہارمون کے انجیکشن دیےجائیں گے اور ان کے دس نطفے تیار کیے جائیں گے پھر انھیں اس وقت تک منجمد رکھا جائے، جب تک ان کےخون اور ٹشوز سے مناسبت رکھنے والا ڈونر دستیاب نا ہو جائے جس کے بعد سرجن وصول کنندہ خاتون کو عطیہ رحم مادر لگا دیں گے۔
تاہم آپریشن کے ایک سال بعد ایک زندہ جنین کو ایک وقت میں رحم مادر میں ڈالا جائے گا جب تک حمل حاصل نہیں ہو جاتا ہے جبکہ بچے کی پیدائش کے آپریشن کے بعد رحم مادر کو ہٹا دیا جائے گا تاکہ جسم اسے مسترد نا کر سکے۔
ٹرانسپلانٹ کیے گئے رحم مادر سے بچے کی پیدائش کا کامیاب تجربہ سویڈن میں پچھلے سال کیا گیا ہے۔
معذور بچے کے لیے دو ہاتھوں کی پیوند کاری
جولائی 2015ء میں یونیورسٹی اسپتال پینسلوانیا کے سرجنوں کی ایک ٹیم نے ایک 8 برس کے معذور لڑکے زیون ہاروے کو گیارہ گھنٹے طویل آپریشن کے بعد دو نئے ہاتھ لگا دیے۔
دو سال کی عمر میں زیون ہاروے خون کے ایک مہلک انفیکشن کا شکار ہو گیا تھا، جس کے بعد ڈاکٹروں کو اس کے ہاتھ پیر کاٹنے پڑے، جبکہ انفیکشن نے اس کے گردے کو ناکارہ کر دیا تھا۔
چار سال کی عمر میں زیون کو اس کی ماں کی طرف سے عطیہ کیا جانے والا گردہ لگا دیا گیا، تاہم چھ سال کی عمر میں پینسلوانیا کے بچوں کے ایک اسپتال کی طرف سے زیون کی والدہ پیٹی رئے کو بتایا گیا کہ پیوند کاری کےجدید طریقہ کار کی مدد سے زیون ہاروے کو حقیقی ہاتھ لگائے جائیں گے۔
ڈاکٹروں کے مطابق یہ ایک پیچیدہ آپریشن تھا کیونکہ بچے کی عمر کم تھی لہذا سرجنز کو خون کی وریدیں، پٹھوں، اعصاب، جلد اور ہڈیوں کو اس طرح منسلک کرنا تھا کہ جسم کے فریم کے تناسب کے حساب سے ہاتھ کی نشوونما ہو سکے۔ زیون ہاروے اب کتاب ہاتھ میں پکڑ سکتا ہے وہ اپنے چہرے کو چھو سکتا ہے اور لوگوں سے ہاتھ ملانے کے قابل ہو گیا ہے۔
دنیا میں پہلی بار کھوپڑی کی کامیاب پیوند کاری
ایک 55 سالہ ٹیکساس کے رہائشی جیمز بوئسن نےاس سال جون کے مہینے میں جب ہیوسٹن میتھو ڈسٹ اسپتال چھوڑا، تو وہ صحیح معنوں میں ایک نئے شخص تھے۔
مئی 2015ء میں طب کی تاریخ میں پہلی بار جیمز بوئسن کو ایک انسانی کھوپڑی لگائی گئی۔ 15 گھنٹے طویل آپریشن میں درجنوں ڈاکٹروں اور چالیس میڈیکل پروفیشنلز کی مدد سے سب سے پہلے کھوپڑی کی پیوند کاری کی گئی جس کے بعد انھیں نیا لبلبہ اور گردہ بھی لگایا گیا۔
سوفٹ وئیر ڈویلپر جیمز بوئسن ایک خطرناک کینسر سے برسر پیکار ہونے کے بعد کینسر کے علاج کیمیوتھراپی اور ریڈیو تھراپی کے باعث سر کی جلد سے محروم ہو گئے تھے اور ان کے سر پر ایک دس انچ کا سوراخ ہو گیا تھا۔
وہ سر کے اتنے بڑے زخم کے ساتھ لبلہ اور گردے کی پیوند کاری کرانے کے قابل نہیں تھے لہذا ایم ڈی اینڈرسن سینٹر کے پلاسٹک سرجن ڈاکٹر جیسی سیلبر نے انھیں جزوی کھوپڑی دینے کا فیصلہ کیا۔
اگرچہ پچھلے سال نیدرلینڈ میں تھری ڈی پرنٹڈ پلاسٹک کھوپڑی ٹرانسپلانٹ کی گئی ہے لیکن بوئسن دنیا کے پہلے شخص ہیں جنھیں انسانی کھوپڑی لگائی گئی ہے وہ اب درستگی کے ساتھ اپنی کھوپڑی میں درد کے احساس کو محسوس کر سکتے ہیں۔
مکمل چہرے کی پیوند کاری
اگست 2015 میں نیو یارک اسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ایک 41 سالہ رضا کار فائر فائٹر کے مسخ شدہ چہرے کو سرجری کے ذریعے مکمل طور پر تبدیل کردیا ۔
ستمبر 2001ء میں ہارڈیسن جو تین بچوں کے والد ہیں، اپنے آبائی شہر میں ایک امدادی سرگرمی انجام دے رہے تھے جب آگ کے شعلوں میں گھرا ہوا مکان ان پر منہدم ہو گیا اور ہارڈیسن کا ماسک ان کے چہرے پر پگھل گیا۔
63 روز اسپتال میں رہنے کے باوجود وہ اپنا چہرہ، کھوپڑی، ناک، پلکیں، کان، ہونٹ مکمل طور پر کھو چکے تھے اور پچھلے دس برسوں میں 70 آپریشن کروانے کے بعد بھی ڈاکٹر ان کا چہرہ بحال کرنے میں ناکام رہے تھے۔
نیویارک میں' این وائی یو لنگن میڈیکل سینٹر' سے وابستہ پلاسٹک سرجن ڈاکٹر ایڈوارڈو روڈریگیز کو جولائی کے مہینے میں ہارڈسن کے لیے ان کے رنگ، بال اور خون سے ملاپ رکھنے والا مناسب ڈونر مل گیا اور پھر اگلے مہینے 26 گھنٹے کے ایک آپریشن کے بعد انھیں ایک نیا چہرہ دیا اور اس کے ساتھ ہی انھیں معاشرے میں اعتماد سے جینے کا حق بھی واپس کیا گیا۔
ڈاکٹروں کو توقع ہے کہ وہ ایک سال کے اندر اپنے چہرے کے پٹھوں پر مکمل کنٹرول اور بات چیت کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
چھوٹے مصنوعی دل کی پیوند کاری
مارچ 2015ء میں ایک 44 سالہ خاتون نیماح کاہالا کو چھوٹا مصنوعی دل لگا دیا گیا اگرچہ، دنیا میں اب تک سنک کارڈیا مکمل مصنوعی دل کے ساتھ 8 پیوند کاری کے آپریشن کیےجا چکے ہیں لیکن نیماح کاہالا چھوٹے سائز کا مصنوعی دل وصول کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون ہیں۔
نیماح کاہالا دل کے پٹھوں کی بیماری میں مبتلا تھیں، جنھیں مصنوعی تنفس پر رکھا گیا تھا انھیں فوری طور پر ایک عطیہ دل کی ضرورت تھی۔
ڈاکٹروں نے خاتون کی جان بچانے کے انھیں عارضی طور پر ایک 50 سی سی سائزکا چھوٹا مصنوعی دل لگادیا، جس سے فوری طور پر خون کے بہاؤ میں مدد ملی اور دل کو واپس بحال اور مستحکم کیا گیا تاکہ انھیں عطیہ دہندگان کی انتظار کی فہرست میں رکھا جا سکے۔
ایک ہفتے بعد ڈاکٹروں کو خاتون کے لیے ایک مناسب ڈونر مل گیا جس کے بعد مصنوعی دل ہٹا دیا گیا لیکن اس مصنوعی دل نے خاتون کو زندہ رکھنے میں کافی مدد فراہم کی تھی۔
عضو تناسل کی کامیاب پیوند کاری
دسمبر 2014ء میں ایک 21 سالہ نوجوان عطیہ کیے ہوئے عضو تناسل کی پیوند کاری وصول کرنے کے لیے دنیا کا دوسرا مریض بن گیا۔
تاہم کیپ ٹاون کے ٹیگر برگ اسپتال کے سرجنز نے مارچ 2015ء میں آپریشن کی کامیابی کا اعلان کیا اور بتایا کہ نو گھنٹے طویل آپریشن کے بعد عضو تناسل کی پیوند کاری وصول کرنے والے شخص نے اس طریقہ کار کو طویل مدتی مقاصد کے لیے کامیاب قرار دیا ہے۔
کیپ ٹاون کے اسپتال کے سرجنوں کی ٹیم کے مطابق 21 سالہ شخص جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے اس کے ختنے کرنے کے عمل میں عضو تناسل ناکارہ ہو گیا تھا۔
عضو تناسل کی پیوند کاری کا تجربہ پہلی بار چین میں ایک 44 سالہ شخص پر کیا گیا تھا جس نے دو ہفتے بعد آپریشن کو ناکام قرار دیتے ہوئے پیوند کاری ہٹانے کے لیے کہا تھا۔