پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہونے والی کسی بھی سرد مہری کے نتیجے میں پاکستان کے لیے امریکی امداد خطرے میں پڑجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا امریکی امداد کا مقصد ملکی ترقی کے لیے امریکہ کی جانب سے خلوص بھرا اظہار ہے یا پھر پاکستان کی امریکہ کے لیے بعض خدمات کا معاوضہ۔
حال ہی میں واشنگٹن میں قائم ایک امریکی تھینک ٹینک نے پاکستان کی ترقی کے لیے امریکی امداد کو زیادہ مؤثر بنانے پر ایک رپورٹ تیار کی ہے اور اس سلسلے میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران رپورٹ کے مصنفین اور تجزیہ کاروں نے اس موضوع پر اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب بھی دیے۔
اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد دنیا نے ایک مرتبہ پھربہت سے امریکی حلقوں کی جانب سے پاکستان کے لیئے امریکی امداد پر شدید تنقید ہوتے دیکھی جس میں پاکستان کو جواب دہ ٹہرانے اور یہاں تک کہ امداد کے خاتمے تک کے مطالبات کیے گئے۔
واشنگٹن میں سینٹر فار گلوبل ڈیولپمنٹ کی صدر نینسی برڈ سیل نے پاکستان کی ترقی کےلیے امریکی تعاون کو زیادہ موثر بنانے کی تجاویز پر مبنی رپورٹBeyond Bullets & Bombs: Fixing The U.S Approach To Dev. In Pak. کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ پاکستان کےلیے امریکی امداد کے مقاصد کا واضح نہ ہونا اسے متنازع بنانے کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ ہماری رپورٹ میں شامل ایک پیغام یہ بھی ہے کہ پاکستانی عوام کی خود ان کے اپنے ہاتھوں خوش حالی اور سلامتی کو ممکن بنانا امریکی امداد کا مقصد ہونا چاہیئے ۔امریکی امداد کامقصد امریکیوں کی خوشحالی اور سلامتی کو پاکستانیوں کی مستقبل کی خوشحالی اور سلامتی کو یقینی بنانے کے ذریعے محفوظ کرنا ہونا چاہیئے ۔
اس رپورٹ میں خاص طور سے گزشتہ کچھ برسوں کے دوران امریکہ کی پاکستان کی ترقی کے لیے دی جانے والی امداد کے امریکی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں سے نتھی کیے جانے کو امریکی امداد کے مثبت سے زیادہ منفی نتائج پیدا کرنے کی وجہ قرار دیا گیا ہے ۔
سینٹر فار گلوبل ڈپلومیسی کی مولی کنڈر کہتی ہیں کہ امریکی امداد کو زیادہ مؤثر بنانے کی کسی کوشش سے بھی پہلے ضروری ہے کہ اس کے ممکنہ نقصان دہ اثرات سے بچا جائے ۔
http://www.youtube.com/embed/aDG-xRqq5J0
ان کا کہناتھا کہ ان میں سے معاملہ ایک امداد ی رقم کوفاٹا جیسے علاقے میں تیزی سے خرچ کرنا ہے جہاں حالات انتہائی مشکل ہیں ۔ دوسرا ایشو امداد کے کرپشن کی نظر ہوجانے یا صحیح نتائج نہ دینے کے بارے میں تشویش ہے ۔ اس کے لیے ہم نے یہ تجویز دی کہ نتائج کے حصول کے لیے ادائیگی کی جائے ۔ مثلاً سیکنڈری سکول سے پاس ہونے والے ہر اضافی بچے کے لیے امریکہ دو سو ڈالرز دے۔ تاکہ پاکستانیوں کو بھی اس امداد کے نتائج دکھائی دیں اور وہ محض خانہ پری کا کام نہ کرے ۔
پاک امریکہ تعلقات امور کے تجزیہ کار معید یوسف کی رائے میں امریکی امداد کے استعمال کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی خود پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔
ان کا کہناتھا کہ پاکستان میں اکثر یہ بحث ہوتی ہے کہ امریکہ کی یہ غلطی ہے وہ غلطی ہے ، لیکن یہ امداد پاکستانی عوام کے لیے ہے ۔ پاکستان کی حکومت اس میں جتنی زیادہ شفافیت لائے اتنا ہی اس ملک کا فاعدہ ہوگا۔
جہاں امریکہ میں پاکستان کو دی جانے والی امداد باہمی تعلقات کے ہر بحران میں تنقید کی زد میں آتی ہے،وہاں پاکستانیوں کی اکثریت میں بھی اس امداد کے حوالے سے بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں ۔اسد عمر پاکستان بزیس کونسل کے چیئرمین ہیں ۔
ان کا کہناتھا کہ پچاس سال سےپاکستان کی ضرورت سے زیادہ امریکہ انحصار کررہا ہے جس کی وجہ سے ہمیں بہت نقصان ہوا ہے ۔ امریکی امداد سے منسلک مسائل کے باعث ہماری اندرونی اور بیرونی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔
تاہم امریکہ کے لیئے پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے مطابق ماضی میں امریکی امداد نے پاکستان کی تعمیر وترقی پر بہت سے مثبت نقوش چھوڑے ہیں۔