پاکستان کے صوبہ پنجاب کو انڈس ہائی وے کے ذریعے بلوچستان اور سندھ سے ملانے والی سڑک گزشتہ آٹھ دِنوں سے بند ہے جب کہ جنوبی ضلع راجن پور کی تحصیل تونسہ شریف کی آبادیاں سیلابی پانی کی نذر ہو چکی ہیں۔
ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ لوگوں میں خارش اور دوسری بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ علاقے کے بیشتر دیہات مکمل طور پر پانی میں ڈوب چکے ہیں۔
راجن پور کی تحصیل تونسہ شریف سے تقریباً ستر کلومیٹر شمال مغرب میں واقع علاقے جلوں والی کے رہائشی سہیل طیب نے بتایا کہ بدھ کی شام تک اُن کے گاؤں کے 200 سے زائد مکانات مکمل طور پر پانی میں ڈوب گئے۔ لوگ بے یارومددگار پڑے ہوئے ہیں جن کی اولین کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی جانوں کو بچایا جا سکے۔
طیب کے بقول صورتِ حال کچھ بہتر ہوتی ہے تو دوبارہ بارش ہو جاتی ہے اور پانی کا کٹاؤ پہلے سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ لوگ دربدر ہو گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ پانی کا کٹاؤ عین اسی جگہ پر ہے جہاں اُن کا گاؤں اور دیگر بستیاں آباد تھیں۔ لوگوں کے پاس سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ کسی کے پاس کوئی خیمہ نہیں ہے۔
سہیل طیب بتاتے ہیں کہ صرف اُنہیں کی آبادی ہی نہیں بلکہ تونسہ شریف میں جتنی بھی آبادیاں اور بستیاں ہیں، سب کی سب سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں۔ ہم لوگوں پر قیامت گزری ہے لیکن اب تک کسی نے بھی رابطہ نہیں کیا۔
تونسہ شریف کی ایک بستی وہواں کے رہائشی سلیم احمد کہتے ہیں کہ وہ لوگوں سے سنتے ہیں کہ حکومت امداد دے رہی ہے لیکن ان کے علاقے میں اب تک کسی بھی سرکاری فرد کی جانب سے ایک وقت کا کھانا تک نہیں پہنچایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود دار لوگ ہیں، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ آفت کی اِس گھڑی میں وہ بار بار آسمان کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ اُن کے اہلِخانہ اور دیگر افراد اِیسے برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
ضلع راجن پور میں غیر سرکاری تنظیم آغازِ سحر گرین کمیونٹی پاکستان سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مخیر حضرات کی مدد سے امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ تنظیم کے سربراہ عبدالباسط بلوچ کہتے ہیں کہ وہ کشتیوں کی مدد سے لوگوں تک کھانے پینے کی اشیاء پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علاقے میں سب سے بڑا مسئلہ لوگوں تک پہنچنا ہے، سیلابی صورتِ حال کے باعث امدادی کاموں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تنظیم کے ایک رکن ڈاکٹر محمد عرفان بتاتے ہیں کہ علاقے میں لوگوں کی بڑی تعداد خارش کے مرض میں مبتلا ہو رہی ہے جس کی وجہ وہ مسلسل بارش کے پانی میں چلنے یا رہنے کو سمجھتے ہیں۔ اُن کے بقول خارش کے علاوہ ہیضہ، پیٹ کی بیماریاں اور دیگر وبائی امراض علاقے میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ہے جس کی وجہ سے پیٹ کے امراض میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جان صوبہ پنجاب کے وزیر برائے پارلیمانی امور محمد بشارت راجہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں مکانات کو پہنچنے والے نقصانات کے امدادی پیکج پر نظرِ ثانی کا فیصلہ ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امدادی پیکج کے تحت متاثرین کو فوری ادائیگی کی جائے گی۔ مکمل مکان تباہ ہونے پر پنجاب حکومت چار لاکھ روپے جب کہ جزوی طور پر تباہ ہونے والے مکانات کے مالکان کو دو لاکھ روپے دیے جائیں گے۔