|
اقوام متحدہ کے امدادی ادارے افغانستان کے طالبان حکمرانوں کے ساتھ مل کر ملک کے شمال مشرقی حصے میں آنے والے تباہ کن سیلاب میں زندہ بچ جانے والے لاکھوں افراد کی مدد کے لیے کام کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ دفتر(او سی ایچ اے) نے پیر کو بتایا کہ سیلاب میں لا پتہ ہونے والے افراد کی تلاش اور انہیں بچانے کی کارروائیاں جاری ہیں اور متاثرہ علاقے میں اقوام متحدہ کی 14 ٹیمیں کام کر رہی ہیں جو نقصانات اور ضروریات کا جائزہ لے رہی ہیں۔
منگل کو کابل سے جنیوا میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے عہدے دار ٹموتھی اینڈرسن نے زور دے کر کہا کہ انتہائی متاثرہ علاقوں میں ہنگامی خوراک فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے جسے پہلے ہی سے کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کے افغانستان پروگرام کے سربراہ اینڈرسن کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی اور اموات ہوئیں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی لوگ زخمی بھی ہیں۔ ہماری تازہ معلومات کے مطابق، تقریباً 540 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، تقریباً 3000 مکانوں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ 10000 ایکڑ رقبے پر باغات تباہ ہو گئے ہیں جب کہ سیلاب سے مرنے والے مویشیوں کی تعداد دو ہزار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں، ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ اب ان کے پاس گھر رہا ہے اور نہ ہی خوراک۔ اینڈرسن کا مزید کہنا تھا کہ یہاں ہونے والے نقصانات کا مکمل اندازہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اقوام متحدہ کی ٹیمیں ان علاقوں میں پہنچ نہیں جاتیں جو ابھی تک رسائی کے قابل نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم ان تک خوراک گدھوں پر لاد کر پہنچا رہے ہیں کیونکہ کچھ علاقوں تک پہنچنے کا سردست یہی واحد طریقہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خوراک کا عالمی ادارہ زندہ بچ جانے والوں کو ہنگامی خوراک فراہم کر رہا ہے اور ہم آنے والے دنوں میں متاثرہ افراد میں کمبل اور نقد رقوم بھی تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کی ایک ماہ کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔
عالمی ادارہ خوراک نے بتایا کہ سب سے متاثرہ دو علاقے بغلان اور بدخشان ہیں، جہاں بے پناہ بھوک ہے۔ وہاں موسمی فصل تباہ ہو چکی ہے اور بہت کم خوراک دستیاب ہے۔
اینڈرسن نے بتایا کہ گرمیوں کے موسم میں ان آبادیوں کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی امداد کی ضرورت ہو گی۔ ہمارے عملے نے وہاں جس سے بھی بات کی، وہ اپنے گھر اور اپنی فصلوں کی تباہی سے پریشان تھا۔ فصلیں ہی ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہیں۔ اور اس سے بھی ان کی بنیادی ضروریات کا کچھ ہی حصہ پورا ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک ادارے یونیسیف کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 5 سال سے کم عمر کے 32 لاکھ افغان بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اور 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں ہونے والی تقریباً نصف اموات کی وجہ غذائی قلت ہے۔ غذائی کمی کی وجہ سے عام انفیکشن سے بھی ان کے ہلاک ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اینڈرسن نے بتایا کہ ان کی پریشانی کا اصل سبب یہ ہے کہ عالمی ادارہ خوراک کو فنڈنگ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس سال انہیں اپنی امدادی کارروائیوں کے لیے ایک ارب ڈالر کی ضرورت تھی، جس کا ابھی تک صرف 30 فی صد ہی ملا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں خوراک کی امداد میں سخت کٹوتیوں پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت خوراک کا عالمی ادارہ افغانستان میں تقریباً 20 لاکھ افراد کو اپنی سروسز فراہم کر رہا ہے جب کہ اس سے قبل یہ تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ کے قریب تھی۔
ترجمان عالمی ادارہ صحت کرسچین لنڈمیئر نے بتایا کہ شدید بارشوں کے بعد بڑے پیمانے کے سیلابوں سے صحت کے کئی مراکز کو نقصان پہنچا ہے جس سے لوگوں کو ضروری علاج معالجے کی فراہمی مشکل ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے مکمل اعداد و شمار اکھٹے کیے جا رہے ہیں اور عالمی ادارہ صحت اور صحت کے مقامی عہدے دار علاقے کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او اب تک سات میٹرک ٹن ضروری ادویات اور طبی سامان پہنچا چکا ہے اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ماہرین اور امدادی کارکنوں پر مشتمل ایک ٹیم تعینات کر دی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او اور صحت کی دیکھ بھال کے شراکت داروں نے 17 ہیلتھ موبائل ٹیمیں تعینات کر دیں ہیں۔
(لیزا شلین، وی او اے نیوز)