اقوام متحدہ کے ادارے آئی ایل او اور ملکی وغیر ملکی ماہرین کے تعاون سے حکومت پاکستان نے ایک نیا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا بنیادی مقصد اُن لاکھوں خواتین کو آمدن کے ذرائع مہیا کرنا ہے جو ملک کی تاریخ کے حالیہ تباہ کن سیلاب میں یا تو اپنے روزگار سے محروم ہو گئیں یا ان کا ذریعہ معاش متاثر ہوا۔
آئی ایل او کے جائزے کے مطابق سیلاب نے پچاس لاکھ سے زائد افراد کے روز گار کو تباہ یا متاثر کیا ہے اور ان میں دس لاکھ سے زیادہ خواتین ہیں جن کی آمدن کا انحصار کھیتی باڑی اور مال مویشوں پر تھا جو اس قدرتی آفت میں تباہ ہو گئے۔
آفات سے نمٹنے کے لیے قائم قومی ادارےاین ڈی ایم اے کے سربراہ ندیم احمد نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک لاکھ سے زائد خاندان ایسے ہیں جہاں کوئی مرد کفیل نہیں اور پورے گھر کا انحصار صرف عورت کی آمدن پر ہے۔
ندیم احمد نہ بتایا کہ سیلاب نے اگرچے ستر سے زیادہ اضلاع کو متاثر کیا ہے لیکن روز گار بحالی کا پروگرام فی الحال ان اضلاع میں شروع کیا جارہا ہے جہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی اور اس منصوبے کے تحت ہر علاقے کی مروجہ ثقافتی روایات کے مطابق روز گار کےمناسب مواقع پیدا کیے جائیں گے۔
ان میں چھوٹے قرضے دینے کے علاوہ سیلائی، کڑھائی ، قالین بننے کی تربیت، پولٹری فارمنگ اور کھیتی باڑی کے جدید طریقوں سے آشنائی کے علاوہ ’’نقد برائے کام‘‘ کا پروگرام بھی شامل ہو گا جس کے تحت عورتوں کو عارضی روز گار دیا جا سکتا ہے۔
ندیم احمد کا کہنا تھا کہ ’’ متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کا کام شروع ہونے سے روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوں گے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح مردوں اور عورتوں میں انہیں یکسان تقسیم کیا جائے‘‘۔
خواتین کی ترقی کی وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ سیلاب میں متاثر ہونے والی عورتوں کے روز گار کی بحالی کے لیے اگرچے پہلے بھی اقدامات کیے جا رہے تھے لیکن اب جو پروگرام شروع کیا گیا ہے وہ منظم ہوگا اور اس میں تمام متعلقہ اداروں کے مشترکہ وسائل، حکمت اور صلاحیتیں شامل ہوں گی جس سے عورتوں کی مشکلات زیادہ موثر طور پر دور ہو سکیں گی۔
آئی ایل او کے پاکستان میں نمائندے ڈونگلن لی کا کہنا ہے کہ کسی ملک کی معیشت میں عورتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اگر عورتیں روز گار سے محروم ہو جائیں تو مردوں کے مقابلے میں ان کا مجموعی درجہ بھی کمزور ہو جاتا ہے۔