غیر ملکی جنگجوؤں کی شام اور عراق میں آمد کو روکنے کے لیے مغربی کوششوں نے کچھ کامیابی حاصل کی ہے مگر شدت پسندی کی جانب مائل افراد کی میدان جنگ میں آمد اب بھی جاری ہے۔
امریکہ کے ایک انٹیلی جنس عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حالیہ اندازوں کے مطابق کم از کم 120 ممالک سے 34,400 غیر ملکی جنگجو عراق اور شام میں لڑائی میں شریک ہونے کے لیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 6,000 مغربی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار اس سے قبل اکتوبر 2015 میں لگائے گئے تخمینے سے زیادہ ہیں جب حکام نے کہا تھا کہ عراق اور شام میں کم از کم 115 ممالک سے 30,000 سے زائد غیر ملکی جنگجو موجود ہیں جن میں 4,500 سے زائد مغربی ممالک سے ہیں۔
انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ ان امریکیوں کی، جو’’جنگ میں شرکت یا کسی اور طرح مدد‘‘ کے لیے شام اور عراق گئے یا جانے کی کوشش کی، ان کی تعداد میں تبدیلی نہیں ہوئی جو اب بھی لگ بھگ 250 ہے۔
ان تخمینوں کی معلومات رکھنے والے حکام نے خبردار کیا ہے کہ اس تعداد میں کئی عوامل کی بنا پر اضافے کا امکان ہے، جن میں ان معلومات تک بہتر رسائی اور ایسے افراد کی شناخت کے بارے میں خفیہ کوششیں شامل ہیں۔
سابق انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ اکثر جنگجو جون 2014 میں موصل پر داعش کے قبضے کے بعد میدان جنگ پہنچے۔
سکیورٹی انٹیلی جنس تنظیم صوفان گروپ کے لیے کام کرنے والے پیٹرک سکنر نے کہا کہ ’’اس میں کمی آئی ہے کیونکہ وہاں جانا مشکل ہو گیا ہے اور دیگر ممالک اس کے خلاف کارروائی بھی کر رہے، صرف امریکہ ہی نہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ممکنہ غیر ملکی جنگجوؤں کو روکنے کے لیے کافی نہیں۔
’’جب تک لوگ وہاں جانے کے لیے تیار ہیں، وہ وہاں جا سکتے ہیں۔ ہم نے انتہا پسندوں کے سفر کو روکنے سے متعلق اپنی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا ہے۔‘‘
دفاعی حکام نے کہا ہے کہ اگرچہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ داعش اب لوگوں کی جنگ میں شمولیت لازمی بنانے پر مجبور ہے مگر یہ شدت پسند تنظیم نئے جنگجوؤں کی مسلسل آمد کے باعث 20,000 سے 30,000 تک جنگجوؤں کی مستقل قوت برقرار رکھنے کے قابل ہے۔
اعداد و شمار کی معلومات رکھنے والے ایک امریکی عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2015 کے اواخر تک ہر ماہ ایک ہزار سے کچھ زیادہ غیر ملکی جنگجو داعش میں شمولیت اختیار کر رہے تھے۔ عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ ترک حکام کی طرف سے سرحد پر نگرانی بڑھانے کے باوجود ترکی کے راستے شام کا سفر سب سے زیادہ مقبول رہا۔
ایسے شواہد بھی ہیں کہ داعش کا پیغام یورپی نوجوانوں خصوصاً عورتوں میں مقبول ہے، اگرچہ اس کے خلاف پیغامات پھیلانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
امریکہ کے انسداد دہشت گردی کے حکام کو خدشہ ہے کہ صدر بشار الاسد کی حمایت کے لیے روس کی شام میں آمد بھی جنگجوؤں کو لڑائی میں شامل ہونے کے لیے ترغیب دے گی کیونکہ داعش افغانستان میں روس کی ماضی کی کارروائیوں کو مزید جنگجوؤں کو بھرتی ہونے پر اکسانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔