وائٹ ہاؤس کی طرف سے ہفتہ کو جاری ہونی والی دستاویزات کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلن نے روسی ٹی وی نیٹ ورک اور روس سے تعلق رکھنے والی ایک دوسری کمپنی سے ادا ہونے والے رقم کو ان کی طرف سے فروری میں پر کیے جانے والے مالیاتی فارم میں ظاہر نہیں کیا۔
خبر رساں ادارے 'روئیٹرز' کی ایک رپورٹ کے مطابق فلن نے ایک دوسرے فارم میں 31 مارچ کو دستخط کئے تھے جس میں انہوں نے روسی کمپنیوں بشمول کریملن کی مالی اعانت سے چلنے والے "آر ٹی" ٹی وی اور فضائی کمپنی 'ولگا دنپر' کے لئے مختلف امور پر رسمی گفتگو کرنے کے معاملات کا اندراج کیا ہے۔
اس فارم میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ فلن کو کتنی رقم ادا کی گئی تاہم ان تقریروں کا ذکر "ایک سال میں پانچ ہزار ڈالر سے زیادہ معاوضہ" کے عنوان کے تحت کیا گیا ہے۔
ان تقاریر کا اس فارم میں کوئی ذکر نہیں ہے جس پر فلن نے 11 فروری کو الیکٹرانک طریقے سے دستخط کیے تھے۔
ان دونوں فارم میں مبینہ تضاد کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی ہے تاہم روسی کمپنیوں کی طرف سے ادا کی جانے والے رقم سے متعلق تضادات کی وجہ سے فلن کی قانونی مشکالات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
قومی سلامتی کے سابق مشیر کو، جنہیں روسی عہدیداروں سے مبینہ رابطوں کی وجہ سے مستعفیٰ ہونا پڑا، 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق ہونے والی جامع تحقیقات میں چھان بین کا سامنا ہے۔
فلن کے اٹارنی رابرٹ کیلنر نے جمعرات کو کہا تھا کہ فلن نے مقدمہ سے استثا کی درخواست پر امریکہ کی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹیوں سے تعاون کرنے کی پیش کش کی تھی۔
فلن نے امریکہ میں روس کے سفیر سرگئی کسلیاک کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے متعلق نائب صدر مائیک پینس سے غلط بیانی سے کام لیا تھا، جس پر اُنھیں 13 فروری کو مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔ انہوں نے روسی سفیر سے یہ بات چیت ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے کی تھی۔
صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ڈیموکریٹس ان تحقیقات کو اس لئے آگے بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی جماعت کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کے خلاف 8 نومبر کو ان کے فتح کی وجہ سے پریشان ہیں۔
کانگرس کی کمیٹیاں اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ' ایف بی آئی' امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں کے ان الزامات کی چھان بین کر رہے ہیں کہ روس نے گزشتہ سال کی صدارتی مہم میں مداخلت کی تھی۔
روسی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور وہ اس بات سے بھی انکار کرتی ہے کہ اس نے ڈیموکریٹک گروپوں کی ای میلز کو ہیک کر کے حاصل ہونے والی معلومات کو افشا کیا اور انتخاب کو ٹرمپ کے حق میں موڑنے کی کوشش کی جو روس کے ساتھ بہتر تعلقات کا مطالبہ کر چکے تھے۔