اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ لڑائی اور خوراک کے بحران کی وجہ سے یمن کو رواں سال قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہنگامی امداد کے رابطہ کار اسٹیفن او برائن نے سلامتی کونسل کو جمعرات کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یمن کے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ ایسے ہیں جنہیں خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے اور 20 لاکھ افراد کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی اشد ضرورت ہے جب کہ غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کی شرح ایک سال میں 63 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر دس منٹ کے بعد پانچ سال سے کم عمر کا ایک بچہ ان وجوہات کی بنا پر جان کی بازی ہار جاتا ہے، جن سے بچاؤ ممکن ہے۔
اسٹیفن نے کہا کہ غربت، جنگ اور سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد کی جانب سے یمن کی بحری ناکہ بندی کی وجہ سے خوراک کی فراہمی شدید متاثر ہوئی۔
انہوں نے یمن کے تنازع کے تمام فریقوں بشمول یمن کی حکومت اور سعودی قیادت کے اتحاد کے ساتھ مل کر فضائی حدود کو تجارتی جہازوں کے لیے کھولنے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پابندی کی وجہ سے تقریباٍ 20ہزار سے زائد یمنی شہری بیرون ملک علاج کے لیے نہیں جا سکتے۔ انہوں نے کہا اس ناکہ بندی کی وجہ سے عام شہری بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ یمن میں گندم کے ذخائر آئندہ صرف تین ماہ کے لیے کافی ہے۔
اس خدشہ کا اظہار اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے ایک عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئیڑز سے گفتگو میں کیا ہے۔
یمن میں اقوام متحدہ کے انسانی بہبود کے رابطہ کار جیمی میک گولڈرک نے کہا کہ یمن میں گندم کا ذخیرہ اب صرف تین ماہ کے لیے کافی ہے اور یہ ہی صورت حال چاول جیسی دیگر اجناس کی بھی ہے۔
تقریباً دو سال قبل حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی زیر قیادت یمن میں شروع ہونے والی لڑائی کے دوران یمن کے دو تہائی شہریوں کو امداد کی اشد ضرورت ہے، جب یمنی شہریوں کو تنخوائیں نا ملنے کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔