کرہ ارض پر ماحولیاتی تبدیلی کے تمام تر اثرات انسانی زندگی پر پڑ رہے ہیں اور ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ انسان نے اپنا رہن سہن نہ بدلا اور اپنے ماحول کو بچانے کی کوشش نہ کی تو رفتہ رفتہ زندگی ہی معدوم ہوتی جائے گی۔ماحولیاتی تبدیلی پر یقین نہ رکھنے والے شاید اسے قابلِ توجہ نہ سمجھیں مگرجو لوگ اس سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں ان کے تجربات پریشان کن ضرور ہیں۔
انہی لوگوں میں بنگلہ دیش کی انتیس سالہ مورینہ خاتون بھی ہیں۔ ان کے شوہر نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ اپنے والد کے پاس واپس آگئیں مگران کے والد جلد ہی چل بسے اور خاندان کے تین اور افراد کی کفالت ان پر آن پڑی۔ والدین کا گھر پہلے ہی دریا کے کٹاؤ کی نذر ہو چکا تھا، کاشتکاری کی زمین بھی نہ رہی۔۔۔خاتون کے لیے دنیا اندھیر ہو گئی۔
انہوں نے گزر اوقات کے لیے مونگلا نامی قصبے میں جہاں بنگلہ دیش کی دوسری بڑی بندرگاہ بھی واقع ہے، ایک ایسی فیکٹری میں ملازمت کر لی جو ایک ایسے اکنامک ذون میں قائم ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کام کرتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے یہ لوگ بنگلہ دیش کے اندر ہی بے گھر ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے گھر، زمینوں، مویشیوں، سب سے محروم ہو گئے مگر پھر انہیں خلیجِ بنگال سے تیس میل دور ساحل پر واقع مونگلا نامی ایک قصبے میں زندگی از سرِ نو شروع کرنے کا موقع مل گیا۔
مونگلا میں اس وقت لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کے قریب بنگلہ دیش کے اندر ہی بے گھر ہونے والے یہ پناہ گزین آباد ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ قریبی سندر بن سے آئے ہیں منگرووکا دنیا کا یہ سب سے بڑا جنگل ہے اور بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد کے ساتھ پھیلا ہے اور بنگال کے خطرناک شیر بھی یہیں پائے جاتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ملک کے اندر یا سرحد کے پار لوگوں کا بے گھر ہونا ایک ایسی بڑھتی ہوئی حقیقت ہے جس میں آنے والے عشروں میں مزید تیزی آنے کا خدشہ ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مارچ کے مہینے میں اقوامِ متحدہ کے تحت جاری ہونے والی" انٹروگورنمنٹل پینل آن کلائیمیٹ چینج" یا ماحولیاتی تبدیلی کے بین الاحکومتی پینل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ آئندہ تیس برسوں میں سمندر کی سطح بلند ہونے، خشک سالی، درجہ حرارت میں اضافے اور دیگر قدرتی آفات کے سبب 14 کروڑ 30لاکھ افراد کے اپنے گھروں سے بے دخل ہونے کا خدشہ ہے۔ ایشیا جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ ہے، اس کے لیڈر ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی سعی کر رہے ہیں۔
ڈھاکہ میں قائم ،"انٹرنیشنل سنٹر فار کلائمیٹ چینج اینڈ ڈویلوپمنٹ" کے ڈائرکٹر سلیم الحق نے مونگلا کو ماحولیاتی تبدیلی کے پناہ گزینوں کے لیے ماحول دوست شہر قرار دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں،" جب بات ہو متبادل اختیار کرنے کی تو مونگلا کو کامیابی کی دلیل کہا جا سکتا ہے۔ جہاں بندرگاہ اور برآمدات کا زون اور ماحولیاتی تبدیلی برداشت کرنے والا زیریں ڈھانچہ لوگوں کو نئے مواقعے فراہم کرتا ہے۔"
سلیم الحق کہتے ہیں مونگلا کی طرز پر پورے بنگلہ دیش میں کم از کم دو درجن مزید ساحلی قصبے آباد کیے جا رہے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی سے بے گھر ہونے والوں کو محفوظ گھر فراہم کریں گے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے زیریں علاقے ماحولیاتی تبدیلی سے بہت زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں اور لاکھوں لوگوں کے بے گھر ہونے کا اندیشہ ہے۔
عالمی مالیاتی بنک نے گزشتہ برس ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ 2050میں ایک کروڑ 90لاکھ افراد کے ملک کے اندر بے گھر ہونے کا خدشہ ہے جو پورے جنوبی ایشیا میں ایسے لوگوں کی تعداد کے نصف کے برابر ہے۔
حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش کی حکومت نے مونگلا شہر میں ماحول دوست زیریں ڈھانچے پر ہزاروں ڈالر صرف کیے ہیں۔ مونگلا کے برآمدات کے زون میں سرمایہ کاری، خاص طور پر بیرونی سرمایہ کاری دو گنا ہو گئی ہے جس سےوہاں موجود فیکٹریوں میں، ماحولیاتی تبدیلی سے بے گھر ہونے والوں کے لیے ملازمت کے کئی مواقعے پیدا ہوئے ہیں۔
اور امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا اور چین سے ملنے والی رقوم ان پناہ گزینوں کوبڑے شہروں کی نسبت مونگلا ہی میں رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔
(اس مضمون میں مواد اے پی سے لیا گیا ہے)