جمعرات کے روز امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹس کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیاہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بزنس کمپنیوں نے وائٹ ہاؤس میں ان کی صدارت کے دوران چین سمیت غیرملکی حکومتوں اور ان کے راہنماؤں سے 7.8 ملین ڈالر یعنی 78 لاکھ ڈالر وصول کیے ۔
ایوان کی نگران کمیٹی کے ڈیمو کریٹس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ، سعودی عرب ، بھارت ، ترکیہ اور جمہوریہ کانگو ان تقریباً 20 ملکوں میں شامل تھے جن کے نمائندوں نے ٹرمپ کی صدارت کے دوران ان کے ہوٹل اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو رقوم کی ادائیگی کی ۔
رپورٹ کے مصنفین نے دعویٰ کیا ہےکہ بیرونی ملکوں کی حکومتوں سے حاصل کردہ ایسے محصولات سے غیر ملکی حکومتوں کے نمائندوں سے خدمات کا معاوضہ لینے پر عائد آئینی پابندی کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔
“ وائٹ ہاؤس برائے فروخت” کے عنوان کے تحت اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ، "صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر ملکی حکومتوں اور ان کے راہنماؤں سے ، جن میں دنیا کی کچھ انتہائی ناگوار حکومتیں شامل ہیں، سات اعشاریہ آٹھ ملین ڈالر ادائیگیوں کی شکل میں قبول کیے ہیں "
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ،” ہم صرف ایسی چند ادائیگیوں کے بارے میں جانتے ہیں جو سابق صدر ٹرمپ کی صدارت کے صرف دو برسوں کے دوران انہیں دنیا کے 190 سے زیادہ ممالک میں سے صرف 20 ملکوں سے ان کے 500 سے زیادہ کاروباری کمپنیوں میں سے صرف چار کے ذریعے منتقل ہوئیں۔"
SEE ALSO: سپریم کورٹ: ڈونلڈ ٹرمپ کی پرائمری الیکشن میں نااہلی کے فیصلے کے خلاف اپیلچین کی جانب سے ممنوعہ معاوضوں کی وصولی
چین کے معاملے میں رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ بیجنگ کے ساتھ ساتھ ، آئی سی بی سی بینک اور ہینان ایئر لائنز سمیت دوسرےکاروباری اداروں نے ٹرمپ کی ملکیت والی املاک پر، 5.5 ملین ڈالر یعنی 55 لاکھ ڈالر خرچ کیے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق صدر ٹرمپ نے اس وقت آئین کی خلاف ورزی کی تھی جب ان کی ملکیت والے کاروباری اداروں نے ان معاوضوں کو قبول کیا جو بیجنگ نے کانگریس کی رضامندی کے بغیر ادا کیے ۔
رپورٹ کے مصنفین نے کہا ہے کہ پوری رقم اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کیوں کہ 55 لاکھ ڈالر کا اندازہ تو ٹرمپ کے اکاؤنٹس کی ٹیکس اور آڈٹ کمپنی ، مزارز کی جانب سے ایک محدود سطح کے انکشاف اور امریکن فناشل ریگولیٹر ، ایس ای سی کے پاس فائلنگز کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔
27 اگست 2017 کی تاریخ کے ایک اخراجاتی بل میں چینی سفارت خانے کے ایک وفد نے واشنگٹن میں ٹرمپ کے انٹر نیشنل ہوٹل میں ، انیس ہزار تین سو اکانوے ڈالر( 19391ڈالر) خر چ کیے۔
SEE ALSO: کولوراڈو کی سپریم کورٹ کا فیصلہ: ٹرمپ پر پرائمری انتخاب میں حصہ لینے پر پابندیسعودی عرب کی جانب سے ممنوعہ معاوضوں کی وصولی
رپور ٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ سعودی عرب نے سابق صدر ٹرمپ کی مدت صدارت کے دوران ان کے کاروبا ری اداروں کو کم از کم از کم (615422 ڈالر) ، چھ لاکھ پندرہ ہزار چار سو بائیس ڈالر اجرت کے طور پر ادا کیے جس کی امریکی آئین میں ممانعت تھی ۔
یہ رقم ٹرمپ ورلڈ ٹاور اورواشنگٹن ڈی سی کے ٹرمپ انٹر نیشنل ہوٹل میں مارچ 2018 میں سعودی نمائندوں کے قیام کے معاوضے کے طور پر ادا کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق صدر ٹرمپ نے اس بات کا بھی فخریہ تذکرہ کیا تھا کہ سعودی ان کے ساتھ ایسی شرائط پر کاروبار کرنےپر مسلسل رضامند ہیں جو ان کے لیے (ٹرمپ) انتہائی ساز گار تھیں۔
ٹرمپ کا واشنگٹن ہوٹل 2022 میں ایک نجی سرمایہ کار گروپ کو فروخت کیا گیا تھا اور اسے لگژری والڈورف ایسٹوریا لائن کے نام کے تحت ری برانڈ کیا گیا تھا۔
ٹرمپ آرگنائزیشن کا ردعمل
اے بی سی نیوز کو ایک بیان میں، ٹرمپ آرگنائزیشن کے انتظامات میں مدد کرنے والے سابق صدر کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایوان کے ڈیموکریٹس کا بیانیہ دیوانہ پن ہے۔ کیونکہ ٹرمپ نے غیرملکی اداروں سے اپنا کاروباری منافع رضاکارانہ طور پر محکمہ خزانہ کو عطیہ کر دیا تھا۔
ایرک ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے پاس کسی کو تھرڈ پارٹیز - ایکسپیڈیا( آن لائن ہوٹل وغیرہ بک کرنے کی سروس) وغیرہ کے ذریعے بکنگ کرانے سے روکنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے - اس لیے منافعوں کا رضاکارانہ عطیہ، جس کا بیانیے میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ دیوانگی ہے۔ خاص طور پر یہ مدنظر رکھتے ہوئے کہ امریکہ کی تاریخ میں کوئی بھی ایسا صدر نہیں ہے جو چین کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ سخت ثابت ہوا ہو۔ وہ ایک ایسے صدر تھے جنہوں نے ان کی مصنوعات اور سروسز پر اربوں ڈالر کے محصولات متعارف کرائے تھے۔
SEE ALSO: ٹرمپ کے استثنا کا معاملہ؛ محکمۂ انصاف کا امریکی سپریم کورٹ سے جلد فیصلہ کرنے کی درخواستٹرمپ کے خلاف دوسرے مقدمات
2024 کے لیے ریپبلکنزکی صدارتی نامزدگی کے سب سے نمایاں امیدوار ، ٹرمپ کو نیو یارک میں ان دعوؤں کی بنیاد پر سول فراڈ کے ایک الگ مقدمے کا سامنا ہے کہ ان کے رئیل اسٹیٹ کے کاروباروں نے ان کے اثاثوں کی قدر میں دھوکہ دہی سے اضافہ کیا تھا ۔
ان کے خلاف 2020 کے انتخابات کے نتائج کی منسوخی کی سازش پرمارچ میں واشنگٹن میں او ر مئی میں انتہائی خفیہ سرکاری دستاویزات کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے کے الزامات پر فلوریڈا میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
دو بار مواخذے کا سامنا کرنے والے سابق صدر کو 2020 میں ڈیمو کریٹ جو بائیڈن کے ہاتھوں شکست کے بعد جنوبی ریاست کے انتخابی نتائج کو اپنے حق میں پلٹنے کی مبینہ سازش پر بھی جارجیا میں الزامات کا سامنا ہو گا۔
ٹرمپ کے امریکی ریاستوں کے بیلٹ پر رہنے کا حتمی فیصلہ امریکی سپریم کورٹ ہی کرے گی۔
خیال رہے کہ سیاسی مبصرین کے مطابق 2024 کے انتخابات میں ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے اس وقت سب سے بڑے صدارتی الیکشن کے امیدوار ہیں جب کہ صدر جو بائیڈن ڈیمو کریٹک پارٹی کے دوسری چار سالہ مدت کے لیے امیدوار ہوں گے۔
واضح رہے کہ 2017 سے 2021 کے درمیان امریکہ کے ری پبلکن صدر رہنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت آئندہ برس 24 مارچ کو شروع ہونا ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا مستقل یہ زور دیتے رہے ہیں کہ اس مقدمے کی سماعت نومبر 2024 میں امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے وکلا یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ سابق صدر کے دورِ صدارت میں کیے گئے ان کے فیصلوں پر انہیں مکمل استثنا بھی حاصل ہے۔
اس معاملے پر امریکہ کی ڈسٹرکٹ جج تانیہ چٹکن نےڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا کے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا کہ سابق صدر کو وفاقی عدالتی کارروائی سے مکمل استثنا حاصل ہے۔
جج تانیہ چٹکن کی تعیناتی سابق ڈیموکریٹ صدر براک اوباما کے دور میں ہوئی تھی۔ تانیہ چٹکن نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ صدر کے عہدے کو ہمیشہ کے لیے اپنی خواہش کے مطابق لامحدود آزادی حاصل نہیں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا نے ڈسٹرکٹ جج تانیہ چٹکن کے حکم کے خلاف وفاقی عدالت سے رجوع کیا تھا۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے ۔