بھارت کی طرف سے پاکستان کے شہر بالا کوٹ میں ’سرجیکل سٹرائیک‘ کے دعوے کے 43 روز بعد پاکستانی حکام نے اسلام آباد میں موجود متعدد سفارتی نمائندوں، دفاعی اتاشیوں اور غیر ملکی صحافیوں کو اُس مقام کا دورہ کرایا جہاں بھارتی دعوے کے مطابق 300 سے 400 دہشت گردوں اور اُنہیں تربیت دینے والوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی سربراہی میں پاکستانی حکام سفارتی نمائندوں اور صحافیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس پہاڑی مقام پر لے کر گئے۔
ہیلی پیڈ پر اترنے کے بعد وہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک پہاڑیوں پر چڑھتے ہوئے اُس جگہ پہنچے جہاں مبینہ طور پر بھارتی طیاروں نے بم گرائے تھے۔
پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا تھا اور یہ واقعہ بھارت کی طرف سے عام انتخابات کے دوران ووٹ حاصل کرنے کے لئے گھڑا گیا تھا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایٹلانٹک کونسل کی ڈیجٹل فارنزک ریسرچ لیبارٹری کا کہنا ہے کہ سٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ اس ہوائی حملے سے صرف کچھ درختوں کو نقصان پہنچا اور قریب واقع کوئی بھی عمارت اس حملے سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔
گروپ نے وہاں آبادی سے ہٹ کر درختوں کے جھنڈ میں ایک گڑھا دیکھا، جہاں چند درخت گرے ہوئے تھے۔ اس جگہ کے قریب صرف ایک گھر موجود تھا جہاں کے ایک رہائشی کو اس حملے کے دوران کچھ معمولی چوٹیں آئی تھیں۔ وہاں اس گھر کے علاوہ کوئی عمارت موجود نہیں تھی۔ تاہم کچھ فاصلے پر ایک پہاڑی چوٹی پر ایک مدرسہ تھا جہاں 100 سے 150 تک طالب علم قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
نیوز ایجنسی رائیٹرز کے مطابق دورہ کرنے والے سفارتی نمائندوں اور صحافیوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اس دورے سے انہیں بھارتی دعوؤں کے بارے میں حقائق جاننے میں مدد ملے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ بھارت نے اس حملے میں زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ایک بڑے اڈے کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جب کہ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ بھارتی جہازوں کا نشانہ چوک گیا اور وہ اس مدرسے کی بجائے کچھ دور واقع درختوں کے جھنڈ پر بم گرا کر چلے گئے۔
دورہ کرنے والے یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا 300 سے 400 دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا یا پھر اس حملے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
گروپ یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ وہاں 300 ایکڑ رقبے پر موجود اس مدرسے میں، جہاں بچے قرآن حفظ کر رہے تھے، کیا جیش محمد نامی دہشت گرد تنظیم کا کوئی تربیتی اڈا موجود تھا یا نہیں اور کیا جیش محمد مدرسے کو کہیں کور کے طور پر تو استعمال نہیں کر ریا تھا۔
جیش محمد نے 14 فروری کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شہر پلوامہ میں خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں بھارتی فوج کے 40 اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے رد عمل میں بھارت نے پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہوئے بالاکوٹ شہر کے مضافات میں واقع اس مقام کو ہوائی حملے کا نشانہ بنایا تھا۔
اس صورت حال سے جوہری ہتھیاروں کے حامل دونوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات انتہائی کشیدگی اختیار کرتے ہوئے جنگ کے دہانے تک جا پہنچے تھے۔
تاہم دورہ کرنے والے غیر ملکی صحافیوں اور سفارتی نمائندوں کا کہنا تھا کہ قریب قریب ایک گھنٹے کے اس دورے میں اُنہیں اتنا وقت نہیں مل سکا کہ وہ تفصیلی جائزہ لینے کے بعد حتمی رائے قائم کر سکیں کہ کیا مدرسے کی آڑ میں جیش محمد کا وہاں کوئی وجود تھا یا نہیں۔
اُنہوں نے وہاں موجود طلبا اور اساتذہ سے بات کی۔ ایک ٹیچر نے اُنہیں بتایا کہ وہ چھ سال سے اس مدرسے میں تعلیم دے رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ٹیچر نے بتایا کہ یہ مدرسہ مولانا اشرف کی نگرانی میں چل رہا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ جیش محمد کا اس مدرسے سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔
تاہم ’الجزیرہ‘ ٹیلی ویژن چینل، رائیٹرز اور بی بی سی کے نمائندوں نے حملے کے بعد اس مدرسے کا دورہ کرتے ہوئے خبر دی تھی کہ مدرسے میں جیش محمد کے لیڈر مولانا یوسف اظہر کا نام ایک بورڈ پر لکھا ہوا پایا گیا تھا جسے اب مٹا دیا گیا ہے۔
دورہ کرنے والے گروپ میں شامل ایک مغربی ملک کے سفارتی نمائندے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں کبھی جیش محمد کا اس مدرسے کوئی تعلق رہا ہو لیکن اُنہیں اس دورے کے دوران اس کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
جب صحافیوں نے فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور سے اس بارے میں پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ جیش محمد کا اس مدرسے سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ ماضی میں کسی وقت جیش محمد کا اس مقام سے کوئی تعلق رہا بھی ہو تو یہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہو گی۔
اس سے قبل منگل کے روز پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ آیا بھارت نے جان بوجھ کر اس جگہ کو ہدف بنایا تھا یا پھر یہ اُن کے لئے محض ایک علامتی ہدف تھا۔