وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان سے متعلق پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے اور وہ اس ملک میں امن و استحکام دیکھنا چاہتا ہے۔
یہ بات انھوں نے ہفتہ کو سیالکوٹ میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہی جو کہ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے پاکستان کے ساتھ امن کے لیے مذاکرات کی پیشکش پر اسلام آباد کا پہلا اعلیٰ سطحی ردعمل ہے۔
جمعہ کو کابل میں نماز عید کے بعد بات کرتے ہوئے صدر غنی نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امن افغانستان کا قومی ایجنڈا ہے اور ان کا ملک پاکستان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تعلقات تاریخی طور پر اتار چڑھاؤ کا شکار رہے لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران ان میں قابل ذکر حد تک تناؤ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ وہ الزامات ہیں جو دونوں اپنے اپنے ہاں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
افغان صدر کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان میں قیام امن کے لیے کیے جانے والے تمام ضروری اقدام میں اپنا حصہ ڈالتا رہے گا۔
ان کے بقول پاکستان پہلے ہی دوطرفہ، سہ فریقی، چار فریقی اور کثیرالجہتی مذاکرات اور بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور ان تمام ذرائع کو پوری طرح سے استعمال میں لایا جانا ضروری ہے۔
پاکستانی وزیرخارجہ کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ باہمی رابطوں کے دوران بھی اس ضرورت کا ادراک کیا گیا کہ سیاسی، عسکری اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں تعاون بھی ضروری ہے۔
کابل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر مبینہ طور پر موجود ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا جو افغانستان میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے علاوہ دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔
لیکن اسلام آباد ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے عزم پر قائم ہے اور جیسے افغان سرحد پر اس نے اپنی طرف نگرانی کا نظام وضع کیا ہے کابل کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی جانب سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کے اقدام کرے تاکہ عسکریت پسند کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہوئے ان کا قلع قمع کیا جا سکے۔