اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانا سب والدین کی خواہش ہوتی ہے اور اسی خواہش کی تکمیل کے لیے صاحبِ استطاعت لوگ اپنے بچوں کو دنیا کے اعلٰی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں۔ ایسے پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
بیٹی اگر نقش منصور کی طرح ذہین اور محنتی ہو تو اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ ڈاکٹر منصور احمد قریشی خود پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف سدرن پنجاب میں اردو کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ ان کی بیٹی نقشِ منصور کا تعلیمی ریکارڈ ابتدا ہی سے شاندار رہا ہے اور میٹیرئیل سائنس اور پھر انگلش لٹریچر جیسے مضامین میں ڈگریاں لینے کے بعد فل برائٹ اسکالرشپ کا حصول اُن کے لیے مشکل نہ تھا۔
اس وقت نقش بوئیزی آئیڈاہو یونیورسٹی سے میٹیریل سائنس اینڈ انجنئیرنگ میں ایم ایس کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کیلئے واٹر پیوریفیکیشن میٹیرئلز پر تحقیق کر رہی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق، امریکہ میں دس لاکھ سے زیادہ غیر ملکی طالب علم مختلف مراحل میں مختلف النوع شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جو اربوں ڈالر فیس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود گذشتہ دنوں ٹرمپ انتظامیہ نے ایک حکم جاری کیا کہ چونکہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے امریکہ میں یونیورسٹیاں آن کیمپس کی بجائے آن لائن تعلیم دے رہی ہیں اس لئے ان اداروں کے غیر ملکی طلبا یا تو اپنا شعبہ بدل لیں یا اپنے ملک واپس چلے جائیں، کیونکہ امریکہ میں رہنے کیلئے ان کا یونیورسٹی کیمپس میں کلاس لینا ضروری ہے۔
اس حکم سے غیر ملکی طلبا میں پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئی، کیونکہ کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر یونیورسٹیوں نے کیمپس کھولنے کے بجائے آن لائن کلاسز جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
نقشِ منصور کہتی ہیں اگرچہ ان کی یونیورسٹی مکمل طور پر آن لائن کلاسز نہیں دے رہی تھی، مگر پھر بھی ان کیلئے پریشانی ہوگئی تھی کہ وہ اپارٹمنٹ کی لیز کا کیا کریں گی اور دیگر قانونی معاملات کا کیا ہوگا۔
لیکن غیر ملکی طلبا اس پریشانی میں تنہا نہیں تھے۔ امریکہ کی تقریباً کئی بڑی یونیورسٹیوں نے حکومت کے اس اقدام سے اتفاق نہیں کیا اور اسے عدالت میں چیلنج کر دیا اور بدھ کے روز ٹرمپ انتظامیہ کو اپنا حکم واپس لینا پڑا۔
اب غیر ملکی طلبا پہلے کی طرح اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں اور اس بات پر بے حد خوش ہیں کہ وہ اپنے تعلیمی سلسلے کو امریکہ میں ہی جاری رکھ سکتے ہیں۔
لیکن، امریکہ میں سپریم کورٹ کے اٹارنی ایٹ لا کی حیثیت سے کام کرنے والے سلیم رضوی کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اگر یہ فیصلہ سیاسی بنیاد پر تبدیل کیا ہے تو یہ دوبارہ بھی بدل سکتا ہے۔ مگر، ان کے بقول، فی الحال طلبا کے اطمینان کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ایک بہت بڑی پریشانی سے نکل آئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بہت سے پریشان حال طلبا نے قانونی مدد حاصل کرنے کیلئے ان سے رابطہ بھی کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں ان غیر ملکی طلبا کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ حکومت کا کوئی بھی ایسا اقدام جو ان طلبا کیلئے پریشانی کا باعث ہو، یونیورسٹیوں کے نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ ان طلبا کی امریکی یونیورسٹیوں کے لئے آخر اتنی اہمیت کیوں ہے؟ اس بارے میں شکاگو سٹیٹ یونیورسٹی میں مارکیٹنگ اینڈ انٹرنیشنل بزنس کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کہ ان طلبا پر کلاسوں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی پابندی کے سرکاری حکم سے امریکہ میں چھوٹی بڑی تقریباً آٹھ ہزار سات سو یونیورسٹیاں متاثر ہو رہی تھیں۔
یہ غیر ملکی طالب علم یونیورسٹیوں کی فیس کی صورت میں اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں۔ اگر امریکہ میں تعلیم حاصل کرکے انہیں بہترین تعلیمی استعداد اور ڈگریاں حاصل ہوتی ہیں تو یونیورسٹیوں کو بھی ان سے اربوں ڈالر ملتے ہیں۔
ڈاکٹر بخاری کے مطابق، ایک تو غیر ملکی طلبا کی ادا کی گئی ٹیوشن امریکی طلبا کی نسبت تین گنا زیادہ ہوتی ہے، دوسرے یہ طالب علم اپنی تحقیق کے ذریعے امریکی صنعت کو ایسی جدت دے جاتے ہیں جس کا فائدہ امریکی معیشت کو میکرو لیول پر ہوتا ہے۔
یہ طلبا اپنے ساتھ اپنا تنوع بھی لے کر آتے ہیں۔ ان کی قابلیت اور انکی صلاحیتیں ان کے تعلیمی اداروں اور ان کی ذاتی اہلیت کی عکاس ہوتی ہیں اور امریکہ میں ہونے والی تحقیق میں ان کی شمولیت سے کسی بھی تحقیق کے دوران مختلف نظریات اور مختلف النوع نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
سلیم رضوی کا کہنا ہے کہ یہ طلبا وہ سفیر ہیں جو اپنے ملکوں سے اپنی تہذیب اور اپنے ثقافتی رنگ لے کر امریکہ آتے ہیں اور جب اپنے ملکوں کو واپس جاتے ہیں تو امریکہ سے حاصل کی ہوئی اعلیٰ تعلیمی اور تیکنیکی صلاحیت اور تربیت سے اپنے ملک کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
پاکستانی طالبہ نقش منصور کے والد ڈاکٹر منصور قریشی کہتے ہیں کہ اگر ان کے اپنے ملک کے نظامِ تعلیم میں ان کی بیٹی کی صلاحیتوں کو مزید تراش کر ڈاکٹریٹ کروانے کے ویسے مواقع موجود ہوتے، جیسے امریکہ یا یورپی ملکوں کا نظام تعلیم فراہم کرتا ہے، تو وہ بیٹی کی اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنے ہی ملک کو ترجیح دیتے.
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ میں غیر ملکی طلبا کو پہلے کی طرح تعلیم کے مواقعے کی فراہمی جاری رکھ کر اس تعلیمی اور ثقافتی تبادلے کو جاری رکھا جا سکتا ہے، جس میں امریکہ اور پاکستان سمیت کئی ملکوں کا مفاد ہے۔