اسرائیل کی سپریم کورٹ نے سابق وزیرِاعظم ایہود اولمرٹ کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں سنائی جانے والی سزا چھ سال سے کم کرکے 18 ماہ کردی ہے۔
سابق وزیرِاعظم کو دو سال قبل ایک ذیلی عدالت نے بدعنوانی کے ایک مقدمے میں چھ سال قید کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی تھی۔
ستر سالہ اولمرٹ پر الزام تھا کہ انہوں نے وزیرِاعظم بننے سے قبل یروشلم میں دو متنازع رہائشی منصوبوں کی تشہیر کے لیے لاکھوں ڈالر رشوت وصول کی تھی۔ اولمرٹ اس وقت یروشلم شہر کے میئر تھے تاہم وہ ان الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے منگل کو سنائے جانے والے اپنے فیصلے میں اولمرٹ کو ایک رہائشی منصوبے کی تشہیر کے لیے رشوت لینے کے الزام سے بری کردیا ہے لیکن اسی نوعیت کے ایک اور مقدمے میں ان پر فردِ جرم برقرار رکھی ہے۔
ایک الزام سے بری کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے ذیلی عدالت کی جانب سے مارچ 2014ء میں اولمرٹ کو دی جانے والی قید کی سزا چھ سال سے کم کر کے 18 ماہ کردی ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق سابق وزیرِاعظم کی سزا پر عمل درآمد 15 فروری سے شروع ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردِ عمل میں ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ مرکزی الزام سے بری ہونے کے بعد ان کے سینے پر سے ایک بوجھ ہٹ گیا ہے۔
اپنے بیان میں سابق وزیرِاعظم نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ انہیں اپنے سیاسی کیریئر کے دوران نہ تو کبھی رشوت کی پیش کش کی گئی اور نہ انہوں نے کبھی رشوت وصول کی۔
مقدمے میں ریاست کی وکیل نے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیرِاعظم کے خلاف فیصلے سے سب کو یہ پیغام جائے گاکہ اسرائیل میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔
اولمرٹ اسرائیل کی اعتدال پسند جماعت قدیمہ کے سربراہ اور 2006ء سے 2009ء تک اسرائیل کے وزیرِاعظم رہ چکے ہیں۔ وہ کسی مقدمے میں سزا پانے والے اسرائیل کے پہلے سابق سربراہِ حکومت ہیں۔