پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف حکومت کی طرف سے بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے کے بعد جمعہ کو کراچی سے دبئی پہنچ گئے۔
انھیں پاکستان میں آئین شکنی سمیت مختلف مقدمات کا سامنا ہے اور اسی بنا پر ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کا "ایگزٹ کنٹرول لسٹ" میں ڈالا گیا تھا۔
تاہم رواں ہفتے سپریم کورٹ نے ان کا نام فہرست سے خارج کرنے سے متعلق سندھ کی عدالت عالیہ کے 2014ء کے فیصلے کو برقرار رکھا جس کے بعد جمعرات کو وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ سابق صدر کو طبی علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
پرویز مشرف کے وکلاء کا موقف رہا ہے کہ ان کے معالج بیرون ملک ہیں لہذا سابق صدر کو ملک سے باہر جانے دیا جائے۔ وہ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے کراچی میں مقیم تھے اور حالیہ دنوں میں انھیں متعدد بار ناسازی طبع کے باعث اسپتال منتقل ہونا پڑا۔
اکتوبر 1999ء میں اس وقت کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آنے والے جنرل پرویز مشرف تقریباً ساڑھے نو سال تک ملک کی طاقتور ترین شخصیت رہے۔
اگست 2008ء میں انھوں نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور چند ماہ بعد خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ 2013ء میں پاکستان واپس آنے سے قبل ان کا زیادہ تر وقت لندن اور دبئی میں گزرا۔
پاکستان میں اںھیں تین نومبر 2007ء کو آئین کو معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کرنے، ججوں کو نظر بند کرنے، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور لال مسجد کے نائب خطیب غازی عبدالرشید کے قتل کے مقدمات کا سامنا ہے۔
پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر پاکستان میں حزب مخالف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے اور اس نے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاج کا اعلان بھی کیا۔