|
پشاور — پاکستان کے قبائلی ضلع باجوڑ میں بدھ کی شام دو دھماکے ہوئے ہیں جن میں سابق سینیٹر ہدایت اللہ خان سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
باجوڑ کے ضلعی پولیس حکام نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ سابق سینیٹر کی گاڑی کو باجوڑ کی تحصیل ماموند میں ایک دیسی ساختہ ریموٹ بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا۔ حملے میں سابق سینیٹر ہدایت اللہ خان کے علاوہ چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
پولیس حکام نے ایک اور دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تحصیل ماموند کے بعد دوسرا بم دھماکہ تحصیل خار کے علاقے پیشتو میں ہوا جس میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔
ہدایت اللہ خان ایک معروف اور بااثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ قبائلی علاقوں سے آزاد حیثیت میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے اور 2018 سے 2024 تک سینیٹر رہے۔ ان کے والد حاجی بسم اللہ خان کئی بار باجوڑ سے آزاد حیثیت میں رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
ہدایت اللہ خان کے بھائی انجینئر شوکت اللہ خان 2008 سے 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں گورنر خیبرپختونخوا تھے۔
ہدایت اللہ خان صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 22 کے ضمنی انتخابات کے لیے اپنے بھتیجے نجیب اللہ کی الیکشن مہم کے لیے ڈمہ ڈولہ گئے تھے جہاں انہیں نشانہ بنایا گیا۔
دھماکے کی ذمے داری اب تک کسی فرد یا گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ البتہ پولیس حکام اور قبائلی رہنما اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دے رہے ہیں۔
افغانستان سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں گھات لگا کر قتل اور دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول کے دھماکے تواتر سے ہوتے رہتے ہیں جن میں نشانہ اکثر قبائلی رہنما یا مذہبی و سیاسی جماعتوں کے عہدے دار بنتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری ندیم اسلم چودھری نے باجوڑ میں بم دھماکے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے واقعے کو انتہائی افسوس ناک اور بزدلانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے حملوں سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے بھی سابق سینیٹر ہدایت اللہ خان پر حملے کی مذمت کی ہے۔
ایمل ولی خان نے ہدایت اللہ خان کے پسماندگان سے تعزيت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ریاست جرات کرے گی کہ ان کے اہل خانہ کو قاتلوں کے نام بتائے؟
ایمل ولی خان نے سیکیورٹی کی صورتِ حال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا دو ہزار ارب کا بجٹ لینے والے ہماری حفاظت کر پا رہے ہیں؟
ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ باجوڑ میں قدم قدم پر چیک پوسٹس ہیں۔ عام شہریوں کو سیکیورٹی کے نام پر اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اور مقامی لوگوں کو دن میں دس، دس بار شناختی کارڈز دکھا کر اپنی شہریت کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اتنی چیک پوسٹس اور ناکوں کی موجودگی کے باوجود یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟
انہوں نے الزام لگایا کہ یہ کارروائیاں سیکیورٹی اداروں کی ناک کے نیچے یقیناً "گڈ دہشت گرد" کر رہے ہوں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے واقعے میں ملوث کرداروں اور سہولت کاروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔