سابق امریکی سفیر ولیم بی مائیلم نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت خاص طور پر فوج پر انحصار کرتی ہے۔ وہ نہیں چاہے گی کہ فوج کو کسی عدالتی حکم کا نشانہ بنایا جائے۔ یہ آئینی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ آخر کار عدالت کو انہیں راستہ دینا پڑے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی بحران یا بڑی تبدیلی پیدا ہوگی۔ سابق امریکی سفیر نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک دور بیٹھے شخص کے طور پر پیش گوئی کررہے ہیں۔
سابق امریکی سفیر ولیم بی مائیلم وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو انٹرویو دے رہے تھے۔
انہوں نے افغانستان کے امن عمل میں پاکستان کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور افغان امن عمل میں سب سے پہلے اپنے مفاد کو مد نظر رکھے گا۔ اس وقت امن عمل تھوڑا سا منتشر نظر آرہا ہے۔ لیکن پاکستان وہاں ہمیشہ اپنا ایک پراکسی عنصر ضرور رکھنا چاہے گا۔ یعنی افغان طالبان میں اپنا تھوڑا سا حصہ تاکہ افغانستان میں اس کے مفادات محفوظ رہیں۔
کیا پاکستان افغان طالبان پر اب بھی اثرورسوخ رکھتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان بہت عرصے سے جانتا ہے کہ اس کا افغان طالبان پر اثر محدود ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بہت سال پہلے جب وہ اسلام آباد میں تعینات تھے تو طالبان مزار شریف میں بدھا کے مجسموں کو اڑانے کی کوشش کرنے والے تھے اور پاکستان نے انہیں روکنے کے لئے بہت کوشش کی۔ مگر طالبان نے اس دباؤ کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔ اس وقت بھی پاکستان کا طالبان پر مکمل یا جزوی کنٹرول نہیں تھا اور اب بھی اتنا اثر نہیں جتنا ہم سجھتے ہیں۔
ولیم بی مائلم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں ڈیورنڈ لائن پر تناؤ طویل عرصے سے موجود ہے۔ پاکستان کا اصرار ہے کہ یہ حتمی سرحد ہے لیکن افغانستان نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ افغان 1940 کی دہائی سے پاکستان کے وجود کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لہذا ہمیشہ تناؤ رہتا ہے اور اس وقت بھی بہت تناؤ پیدا ہوا جب پاکستان اور افغانستان کے پشتون علاقوں کو ملا کر پشتونستان قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ ولئیم مائیلم کے بقول افغانستان اور پاکستان کو خود ہی اس معاملے کو حل کرنا ہوگا۔ باہر سے کوئی اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتا۔