نائجیریا: دو کار بم دھماکوں میں 118 افراد ہلاک

جوس شہر کے بس اڈے کے نزدیک ہونے والے بم دھماکے کے بعد کا منظر

جوس شہر نائجیریا کی اس پٹی پر واقع ہے جہاں عیسائی اکثریتی جنوبی علاقے اور مسلمان اکثریتی شمالی علاقوں کا سنگم ہوتا ہے۔
نائجیریا کے وسطی شہر جوس میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دو کار بم دھماکوں میں ہلاک افراد کی تعداد 118 ہو گئی ہے۔

حکام نے اس سے قبل دھماکوں میں 46 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی تھی۔


بدھ کی شب نائجیریا کی 'نیشنل ایمرجنسی منیجمنٹ ایجنسی' کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جائے واردات پر بکھرے ہوئے ملبے کے نیچے سے درجنوں لاشیں برآمد ہوئی ہیں جس کے ہلاک شدگان کی تعداد 118 ہوگئی ہے۔

جوس میں ایجنسی کے سربراہ محمد عبدالسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیوں کہ اب بھی کچھ ملبہ ہٹانا باقی ہے جس کے نیچے مزید لاشیں ہوسکتی ہیں۔

حکام کے مطابق دھماکے منگل کی شام چند منٹ کے وقفے سے شہر کی وسطی کاروباری علاقے میں ایک بس اڈے اور اسپتال کے نزدیک ہوئے تھے۔

پولیس کے ایک افسر نے صحافیوں کوبتایا ہے کہ دھماکے کے وقت علاقے میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ پولیس افسر کے مطابق کئی لاشیں مکمل طور پر جھلسنے کے باعث ناقابلِ شناخت ہوگئی ہیں۔

دھماکوں کے باعث کئی دکانیں مکمل طور پر منہدم ہوگئی ہیں جب کہ نزدیکی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔

جوس شہر نائجیریا کی اس پٹی پر واقع ہے جہاں عیسائی اکثریتی جنوبی علاقے اور مسلمان اکثریتی شمالی علاقوں کا سنگم ہوتا ہے۔ شہر کے اس پیچیدہ جغرافیائی محل وقوع کے باعث یہاں ماضی میں فرقہ وارانہ کشیدگی رہی ہے۔

دھماکوں کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی لیکن حکام نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ واردات میں شدت پسند تنظیم 'بوکو حرام' ملوث ہوسکتی ہے۔

'بوکو حرام' نے اس سے قبل بھی شہر میں کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں شہر کے نواح میں جولائی 2012ء میں کیا جانے والے حملہ بھی شامل ہے جس میں 58 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

تنظیم نے گزشتہ ماہ دارالحکومت ابوجا کے نواحی علاقے میں ایک بس اڈے پر بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں 71 افراد مارے گئے تھے۔

دریں اثنا منگل کو نائجیریا کی پارلیمان نے ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں نافذ ہنگامی حالت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کرنے کی منظوری دیدی ہے۔

نائجیریا کے صدر گڈلک جوناتھن نے گزشتہ سال مئی میں 'بوکو حرام' کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز پر شمال مشرقی ریاستوں بورنو، یوب اور اداماوا میں ہنگامی حالت نافذ کی تھی جہاں تنظیم کے جنگجووں نے کئی ہلاکت خیز کارروائیاں کی ہیں۔

نائجیرین حکام کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 'بوکو حرام' کے حملوں میں ہزاروں عام شہری مارے جاچکے ہیں۔ تنظیم کے جنگجووں نے 276 طالبات کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے جنہیں انہوں نے اپریل میں بورنو کے ایک اسکول سے اغوا کیا تھا۔