لیبیا کے مشرقی شہر بن غازی میں ہونے والے ایک راکٹ حملے میں چار بچے ہلاک ہوگئے ہیں جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ہے۔
لیبیا حکام کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ یہ بچے منگل کو لیبیا کی فوج اور داعش کے جنگجووں کے درمیان ہونے والی جنگ کی زد میں آگئے تھے۔
وزیر اعظم عبداللہ الثنی نے اپنے بیان میں ان چار معصوم بچوں کی ہلاکت کو انتہاء پسند دہشت گرد گروپ کا بدترین جرم قراردیا ہے
داعش کے حامیوں نے ٹوئٹر پر دعوی کیا ہے کہ یہ بچے جہاں ہلاک ہوئے تھے وہاں انھوں نے مارٹر راکٹ فائر کئے تھے۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے جنگجووں کی تصویر بھی ٹوئٹر پر جاری کی ہے جس میں انھیں راکٹ لوڈ کرتے فائر کرتے دیکھایا گیا ہے۔
لیبیا کا دوسرا بڑا شہر بن غازی گزشتہ ایک سال سے خلیفہ ہافتر ، جنرل تھینی اور داعش کے گروپوں کے درمیان جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔
2011ء میں معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہاں مختلف قبائلوں کے درمیان لڑائیاں جاری ہیں۔
دو حکومتوں کے درمیان سیکورٹی کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے داعش کے مسلح جنگجوں نے درجنوں غیر ملکی مسیحیوں کو قتل کرنے کے علاوہ تیل کی تنصیبات و پرتعیش ہوٹلوں پر حملے شروع کر دیے تھے۔
فوج نے بن غازی کے بعض علاقوں کا مسلح جنگجو وں سے قبضہ واپس لے لیا ہے لیکن بندرگاہ کا علاقہ اور بعض دیگر اضلاع اب بھی اسلامی بریگیڈ کی قیادت میں کام کرنے والی مجلس شوریٰ کے قبضے میں ہے۔
داعش کے جاری کردہ ایک دوسرے ٹویٹ میں دیکھا گیا ہے کہ مسلح اسلامی جنگجو بندرگاہ کے وسط تک رسائی کے لیے ایک سرنگ تعمیر کر رہے ہیں۔