شدت پسند رجحان، گوانتانامو کے سابق قیدی کا انتباہ

فائل

حکام کے اندازے کے مطابق، فرانس سے تقریباً1500 افراد جہادی گروہوں میں شمولیت کی غرض مشرق وسطیٰ روانہ ہو چکے ہیں۔۔۔ گوانتانامو بے کے ایک سابق قیدی کے پاس اِس کا جواب تو نہیں۔ لیکن وہ ایک مہم چلا رہے ہیں جس کا مقصد نوجوانوں کا ذہن بدلنا ہے

شدت پسند مذہبی سوچ بہت سے ملکوں میں سکیورٹی کے لیے خطرے کا باعث بن چکی ہے۔ لیکن، نوجوان اس کی جانب کیوں راغب ہو رہے ہیں؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے فرانس کا سابقہ پڑ رہا ہے۔ حکام کے اندازے کے مطابق، فرانس سے تقریباً1500 افراد جہادی گروہوں میں شمولیت کی غرض مشرق وسطیٰ روانہ ہو چکے ہیں۔

گوانتانامو بے کے ایک سابق قیدی کے پاس اِس کا جواب تو نہیں۔ لیکن وہ ایک مہم چلا رہے ہیں جس کا مقصد نوجوانوں کا ذہن بدلنا ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کی نامہ نگار، لزا شلائین نے پیرس سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر ضرورت محسوس نہ کرتے تو، مراد بنش علی کبھی فرانس کا دورہ نہ کرتے، اور شدت پسند اسلام کی جانب سے درپیش خطرات کے بارے میں متنبہ نہ کرتے۔

چودھ برس قبل وہ برسر روزگار تھے اور اُن کی ایک منگیتر تھیں۔ پھر ایسا وقت آیا کہ وہ 19 سال کی عمر میں افغانستان گئے، جہاں اُن کی زندگی کا ایک مشکل موڑ آیا۔

بنش علی کہتے ہیں کہ اُن کے بڑے بھائی نے ایک چال کھیلی اور اُنھیں اسکول کی چھٹیاں گزارنے کے لیے افغانستان لے گئے۔ وہاں وہ القاعدہ کے ایک تربیتی کیمپ میں شامل ہوئے۔ جب اُنھوں نے وہاں سے بھاگ نکلنے کی کوشش کی تو اُنھیں گرفتار کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ گوانتانامو بے کے حراستی مرکز جا پہنچے۔ یہ سنہ 2001کا وقت تھا، جب امریکہ پو دہشت گرد حملے ہو چکے تھے۔

آج، علی کی عمر 33 برس سے۔ وہ وسطی فرانس کے شہر لیون کے روشن مضافات والے ونیسوں علاقے میں واقع گھر میں رہتے ہیں۔

وہ اپنی کہانی کو اس لیے بیان کر رہے ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں جہادیوں کے ساتھ شمولیت سے پہلے نوجوان دو بار یہ سوچیں کہ وہ کیا راہ اختیار کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اُن کے پاس سب باتوں کا جواب تو نہیں، آیا نوجوان وہاں کیوں جا رہے ہیں۔۔۔ کیونکہ ہر کہانی کی نوعیت الگ ہے۔ لیکن، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ حل ضرور بتا سکتے ہیں۔

حالیہ مہینوں کے دوران، فرانس کے سینکڑوں نوجوانوں نے عراق اور شام کا رخ کیا ہے۔ منصوریہ مخفی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی ماہر ہیں، اُنھوں نے چونکا دینے والے سوالات اٹھائے ہیں۔

مخفی کہتی ہیں کہ ’سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ یہ نوجوان فرانس سے کیوں جا رہے ہیں؟ اُن کی کشش کا باعث کیا ہے؟ اس قسم کا پروپیگنڈا اتنا متاثر کُن کیوں ہے؟ سب سے بڑھ کر، فرانس میں ایسی کیا بات ہے کہ نوجوان جہاد کے لیے باہر جا رہے ہیں؟‘۔

یہ سوالات ملک بھر میں کیے جارہے ہی۔ تاہم، خصوصی طور پر ونیسوں میں یہ سوال عام ہے، جہاں نوجوانوں کی بیروزگاری بہت بڑا مسئلہ ہے اور ساتھ ہی منشیات کی اسمگلنگ عام ہے۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں الجیریہ کے ایک تارک وطن کے خاندان میں علی پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ یہاں پہ ہی اُن کے بڑے بھائی شدت پسند اسلام کی جانب راغب ہوئے۔

علی نے کہا ہے کہ اُنھوں نے اپنے بھائی کے دھوکے کی قیمت ادا کر دی ہے۔ وہ 30 ماہ تک گوانتانامو میں قید رہ چکے ہیں، جنھیں فرانس کے حوالے کیا گیا۔ 2006ء میں بالآخر قید سے رہائی ملنے پر، اُنھوں نے اپنے تجربوں کی بنیاد پر ایک کتاب تحریر کی، جس کا عنوان ’دوزخ کا سفر‘ ہے۔

ابتدا میں، فرانس میں علی کی کتاب کو خاص پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن، شدت پسند اسلام کے بارے میں بڑھتے ہوئے خوف کی بنا پر اب معاملہ مختلف ہے۔ حالیہ مہینوں کے دوران، اُنھوں نے فرانس کی سینیٹ کی سماعت کے دوران شہادت دی، اعلیٰ اہل کاروں سے ملاقات کی اور پیرس کے مضافات میں مسلمان برادریوں سے خطاب کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔

علی سمجھتے ہیں کہ وہ دوسروں کے لیے ایک مثال بن سکتے ہیں۔ وہ مشکل کے شکار حالات پر قابو پاچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کا دوزخ کی سمت سفر راہ راست کی طرف مڑ چکا ہے ۔ تاہم، اُنھیں اس بات کا خوف لاحق ہے کہ دوسرے لوگ اس غلط راہ پر نہ چل پڑیں۔