فرانسیسی حکومت نے بدھ کے روز ایک مسودہ قانون متعارف کروایا ہے جس کا مقصد اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے ملک کو تیار کرنا ہے۔ یہ مسودہ قانون صدر ایمانوئل میخوان کی سرپرستی میں تحریر ہوا ہے تا کہ ملک کو نقصان پہنچانے والوں پر کنٹرول کیا جا سکے۔
فرانس کو حال ہی میں متعدد اسلامی دہشت گرد حملوں کا سامنا رہا ہے۔ ان میں اس سال اکتوبر میں اس ٹیچر کا سر قلم کرنا بھی شامل ہے، جس نے اپنی کلاس کے بچوں کو مسلمانوں کے پیغبر کے خاکے دکھائے تھے، اس کے علاوہ ایک چرچ پر حملے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس مجوزہ قانون میں گھروں پر قائم کیے گئے سکولوں، مساجد اور ایسی تنظیموں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو فرانسیسی اقدار کے خلاف نظریات کا پرچار کرتی ہیں اور جسے حکام ایسے اسلامی نظریات قرار دے رہے ہیں جن سے تشدد جنم لے سکتا ہے۔
تاہم چند ناقدین اس مسودہ قانون کو نرم قرار دے رہے ہیں، یا 2022 کے صدارتی انتخاب سے پہلے صدر میخوان کی جانب سے سیاسی اقدام کہہ رہے ہیں، تا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے خیالات رکھنے والوں کو اپنی جانب راغب کر سکیں۔
کہا جا رہا ہے کہ جب یہ مسودہ قانون آئندہ مہینوں میں پارلیمان میں پیش ہو گا تو پھر اس پر تند و تیز بحث متوقع ہو گی۔
تاہم یہ موضوع نازک بھی ہے کیونکہ فرانس میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے، جو کہ اندازاً 50 لاکھ ہے۔ سپورٹنگ ریپبلکن پرنسیپلز یعنی جمہوریہ کے قوانین کی حمایت نامی اس مجوزہ قانون میں مسلمانوں کو ہدف بنانے سے گریز کرتے ہوئے براہ راست اسلام یا اسلام پسندی کا ذکر نہیں کیا گیا۔
وزیرِ داخلہ جیرلڈ ڈرمینن نے، جن کے پاس مذہبی امور کی بھی وزارت ہے، بعد میں الگ سے کہا ہے کہ صدر میکرون نے انہیں ہدایت کی ہے کہ مسیحی مخالف، یہودی مخالف اور اسلام مخالف قوانین کے خلاف جنگ کیلئے ایک پارلیمانی مشن تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے بی ایم ایف ٹی وی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے اور یہ ہر ایک کا احاطہ کرتی ہے اور نقصان پہنچاتی ہے۔
علیحدگی پسندی کے خلاف بنائے گئے اس مسودہ قانون کا تعارف کراتے ہوئے، وزیر اعظم یون کاسٹیکس کا کہنا تھا کہ یہ مذاہب، خاص کر مسلمانوں کے خلاف کوئی مسودہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مسودہِ آزادی ہے، ایک مسودہِ تحفظ ہے۔ یہ تو اسلامی بنیاد پرستی سے آزادی کا مسودہ ہے اور ایسے ہی مقاصد رکھنے والے دیگر نظریات سے آزادی کامسودہ ہے۔
کابینہ میں نئے مسودہ قانون کو پیش کرنے کے بعد، ایک نیوز کانفرنس میں بات کرتے ہوئے، یون کاسٹیکس کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو تقسیم کے خواہاں ہیں اور نفرت اور تشدد پھیلاتے ہیں، وہ ہی علیحدگی پسندی کی مرکزیت ہیں۔