سوئٹزر لینڈ کے عوام یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ امیگریشن محدود کرنے سے متعلق تجویز پر آج اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سوئس عوام کی اکثریت اس کے حق میں نہیں، لیکن کسی بھی اپ سیٹ کی صورت میں سوئٹزرلینڈ کے دیگر یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں کیوں کہ اس نے یورپی ممالک کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے۔
سوئٹزر لینڈ یورپی یونین کا باقاعدہ رُکن تو نہیں ہے لیکن براعظم یورپ کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے اس معاملے اور اس کے نتائج میں یورپی ممالک دلچسپی لے رہے ہیں۔
امیگریشن محدود کرنے کی تجویز کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سوئس پیپلز پارٹی (ایس وی پی) کی حمایت حاصل ہے۔
لیکن حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ اس معاملے پر اسے مطلوبہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ایک تازہ ترین سروے کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے 65 فی صد عوام یورپی یونین سے امیگریشن سے متعلق معاہدہ ختم کرنے کے مخالف ہیں۔
اس معاہدے کے تحت سوئٹزر لینڈ اور یورپی یونین کے درمیان لوگوں کو آزادانہ نقل و حرکت کا حق حاصل ہے۔
ووٹنگ کے علاوہ اس تجویز کی منظوری کے لیے ملک کے 26 انتظامی حصوں کی حمایت بھی درکار ہے۔
لیکن ماضی قریب میں سوئس پیپلز پارٹی یورپی یونین سے ملک کے تعلقات کو محدود کرنے کے کئی اقدامات کر چکی ہے۔جس کے باعث اس تشویش میں اضافہ ہو ا ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے اس کے سب سے بڑے تجارتی بلاک یعنی یورپی یونین سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ امیگریشن پالیسی میں آئینی ترمیم کرنے کی تجویز کو عوام کو سامنے رکھا گیا ہے تاکہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائے۔
ترمیم کا مقصد سوئٹزر لینڈ کو یہ حق دلوانا ہے کہ ملک اپنی امیگریشن پالیسی کو آزادانہ طور پر چلا سکے۔
تجزیہ کاروں کے بقول سوئس پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ امیگریشن کا موجودہ نظام بے لگام ہے اور اس میں یورپی یونین کا اثر و رُسوخ زیادہ ہے۔