پاکستان میں سول سوسائٹی، دانشوروں، صحافیوں، وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت ایک سو سے زائد افراد کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں آزادی اظہار کی "سکڑتی ہوئی فضا اور ملک میں جمہوری اقدار و حقوق" کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
میڈیا کو جاری ہونے والے اعلامیے میں بنیادی انسانی ، معاشی اور آزادی اظہار کے حقوق کی تائید کرتے ہوئے جمہوریت پسند قوتوں اورکارکنوں پر ان حقوق کے تحفظ کے لیے مل کر جدوجہد کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق "ایک آئینی جمہوری اور عوامی حکمرانی کا کوئی متبادل نہیں ہے جس کے لیے خود مختار پارلیمان، صوبائی اسمبلیاں اور بااختیار مقامی حکومتیں ضروری ہیں"۔
اس کے ساتھ اعلامیے میں ریاست کے تمام اداروں کوعوام کی طرف سے منتخب کردہ پارلیمان اور ایک ایسی حکومت کے تابع کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے جو عوام کے حقوق کا تحفط کر سکے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے ریاست کے تین ستونوں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی واضح تقسیم ضروری ہے تاکہ اداروں میں غیر آئینی مداخلت کا سدباب کیا جا سکے۔
اعلامیے میں ریاست کے تمام اداروں سے آئین کے تحت شہریوں کے لیے تفویض تمام حقوق کی بلاتفریق مذہب اور جنس تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ اعلامیے میں آزادی اظہار اورمیڈیا پرمبینہ پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام لاپتا شہریوں کی فوری بازیابی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین بھی اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے افراد میں شامل ہیں۔ پیر کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں تیسری بار انتقال اقتدار جمہوری طریقے سے ہونے کے باوجود جمہوری حقوق کی تحریک اور آزادی صحافت کی فضا سکڑتی جا رہی ہے۔ ان کے بقول یہ صورت حال یقیناً باعث تشویش ہے۔
ان کے بقول اسی صورت حال پر سول سوسائٹی نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
زاہد حسین نے مزید کہا کہ سول سوسائٹی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی جمہوری اقدار اور حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا کردار موثر طور پر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ جب اقتدار ان کے پاس ہوتا ہے تو اس وقت اگر وہ جمہوری اور دیگر حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتیں تو اس کا نتیجہ موجودہ صورت حال کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
انھوں نے کہا "جب سیاسی جماعتیں عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آتی ہیں تو پھر جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ انہیں عوام سے وعدے اور ان کو (بہتر) گورننس دینے پر پورا اترنا چاہیئے۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کو درپیش چیلنج کے خلاف آواز اٹھانی چاہیئے لیکن سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ جمہوری اقدار اس وقت پوری ہوتی ہیں جب آپ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کرآتے ہیں تو اگر بدعنوانی کے الزامات لگتے ہیں تو اس کی وجہ سے جمہوری حقوق اور تسلسل کو نقصان پہنچتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی اور تمام متعلقہ حلقوں کی اجتماعی کوششوں سے ہی ملک میں جمہوری اقدار کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
صحافی زاہد حسین کے بقول آزادی اظہار پر پابندی ہوتی ہے تو اس میں یقینی طور پر جمہوری حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔
اگرچہ سول سوسائٹی اور دیگر افراد کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیے پر حکومت کے کسی عہدیدار کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم پاکستان کے وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے حال ہی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ حکومت آزادی اظہار پر یقین رکھتی ہے۔
پاکستان کی سول سوسائٹی کا اعلامیہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب بعض حلقوں کی طرف سے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔