عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پیرس کے حملہ آور تربیت یافتہ اور پُرسکون اور لگتا یوں ہے کہ اُنھوں نے فرانسیسی دارالحکومت پر حملے سے قبل خوب ریہرسل کیا ہوا تھا؛ جس کے نتیجے میں فرانس کے انسداد دہشت گردی پر مامور حکام خیال کرتے ہیں کہ اُن کا تعلق شام کی خانہ جنگی سے تھا اور وہ سابقہ فوجی تھے یا پھر تجربہ کار جہادیوں نے اُن کی تربیت کی تھی۔
فرانسیسی انٹیلی جنس اور انسداد دہشت گردی کے تجزیہ کار آٹھوں حملہ آوروں کی شناخت کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ اُن کے دیگر شدت پسندوں کے ساتھ مراسم کا پتا چل سکے۔
اُن کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے حملے ہوئے وہ خاص اہمیت کی حامل ہے، اور عین ممکن ہے کہ مزید حملے باقی ہوں، ہو سکتا ہے کہ فرانس میں ہوں یا پھر ہمسایہ یورپی ملکوں میں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے، انسداد دہشت گردی سے وابستہ ایک اہل کار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ حملہ آوروں میں سے کچھ کی شناخت ہوچکی ہے۔ لیکن، اس مرحلے پر تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
رائٹرز نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ حملہ آوروں کی لاشوں کے قریب سے شام کا ایک پاسپورٹ برآمد ہوا ہے؛ حالانکہ یورپ ہجرت کرنے والے عموماً شام کے جعلی پاسپورٹ رکھتے ہیں۔
کئی سوالوں کے جواب آنا باتی ہیں: کیا حملہ آور سارے فرانسیسی شہری تھے؟ اُنھیں یہ ہتھیار کہاں سے ملے؟ اور فرانس کے سکیورٹی کے ادارے چوکنہ ہوئے بغیر اُنھوں نے اِن حملوں کی منصوبہ بندی کیسے کی؟
استغاثہ کی خاتون ترجمان، اینجی تھوبو لورے کے مطابق، حملوں میں ملوث آٹھوں دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ سات حملہ آوروں نے خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھے جب کہ آٹھویں کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کیا۔ فرانسیسی حکام نے متنبہ کیا ہے کہ اُنھیں نہیں معلوم کہ مزید حملے کرنے کے لیے کتنے مزید انتہاپسند باقی ہیں۔
فرانسیسی اہل کار، اور زندہ بچ جانے والے بتاتے ہیں کہ اس سال مزاحیہ رسالے، ’چارلی ہیبڈو‘ اور یہودی اسٹور پر ہونےوالے حملوں کے مقابلے میں اِن حملوں میں زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اور جائے واردات خون سے لت پت تھی۔
انسداد دہشت گردی سے متعلق اہل کار، جن کا تعلق پیرس پولیس سے ہے، کہا ہے کہ ’جوں ہی حملہ شروع ہوا، ہمیں پتا تھا کہ وہ زندہ نہیں بچ نکلیں گے۔ اُنھوں نے نقاب نہیں پہنا ہوا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا زندہ رہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، اور انہیں شناخت کا ڈر نہیں تھا۔
برطانوی اور ڈینمارک کے نفسیات داں، مارک کولکو، جنھوں نے حملوں کی زد میں آنے والے تین ریستورانوں کے باہر گولیاں چلتے ہوئے دیکھی تھیں، کہا ہے کہ مسلح افراد کا انداز ’سپاہیانہ‘ تھا۔
کولکو نے ’گارڈین‘ اخبار کو بتایا کہ، ’اُس نے پوزیشن لی ہوئی تھی اور نشانہ لے کر وار کر رہا تھا۔ اُس کی دائیں ٹانگ آگے کی طرف اور بائیں ٹانگ پچھے کی پوزیشن میں تھی، اِسی انداز سے کھڑا تھا۔۔۔ اُس نے جو کپڑے پہن رکھے تھے وہ چست تھے، بوٹ تھے یا جوتے، اور پینٹ تنگ تھی، قمیض بھی ٹائٹ تھی، جس میں زپ یا کالر نہیں تھا۔ سبھی سیاہ رنگ کے تھے۔ اگر آپ سوچ رہے ہوں کی حملہ آور فوجی کیسے لگتا ہوگا، تو یہ بالکل وہی انداز تھا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ مسلح شخص ایک برسٹ میں تین یا چار گولیاں چلا رہا تھا، باقاعدہ پیشہ ورانہ طور پر۔۔ نشانہ لے کر۔