ایسے میں جب یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی بتا رہے ہیں کہ روسی افواج یوکرین کےتقریباً 20 فی صد علاقے پر قابض ہوچکی ہیں، اس لڑائی کو جمعےکو پورے 100 دن ہوگئے ہیں اور اب بھی کئی محاذوں پر گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔
لگزمبرگ کے پارلیمان کے ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ ''بس یہ سوچیں کہ ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے کا علاقہ ہے جس کے اگلے محاذوں پر لگاتار لڑائی ہو رہی ہے''۔ انھوں نے کہا کہ روسی افواج کے زیر کنٹرول یوکرینی علاقہ نیدرلینڈز کے سارے ملک کے رقبے کے مساوی ہے۔
زیلنسکی نے یہ نہیں بتایا کہ 24 فروری سے اب تک روس کتنے علاقے پر قبضے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ سال 2014ء میں روس نے کرائیمیا کے جزیرے پر قبضہ کرلیا تھا اور روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے اس وقت بھی مشرقی ڈونباس خطے کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، جہاں اُن دنوں قبضے سے پہلے سنگین لڑائی جاری رہی تھی۔
یوکرین نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ اس کی افواج نے ملک کے جنوب میں خراسون کے خطے میں واقع 20 چھوٹے قصبہ جات پر دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ دریں اثنیٰ، روسی فوج نے سائیورڈونٹسک پر شدید گولہ باری جاری رکھی ہوئی ہے، جو لہانسک کا علاقہ ہے جو ملک کا مشرقی حصہ ہے، جس آخری کلیدی شہر پر کسی حد تک یوکرین کا کنٹرول باقی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لہانسک کے گورنر سرہی ہاڈائی نے کہا ہے کہ شہر کا تقریباً 70 فی صد رقبہ روس کے کنٹرول میں ہے جب کہ باقی علاقے کی گلیوں میں گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔
برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ روس نے شہر کے زیادہ تر حصے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ وزارت نے بتایا کہ یوکرین کی افواج کا سائیورڈونٹسک کی اہم سڑک پر کنٹرول ہے، جب کہ روس لگاتار مقامی طور پر قابض ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ مستقل شدید گولہ باری ہے۔
یوکرین کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ کیف کی افواج کو توقع ہے کہ وہ جنوبی یوکرین میں اس علاقے پر دوبارہ قابض ہو جائے گی جو اس قبل ہونے والی لڑائی میں اس کے ہاتھوں سے چلا گیا تھا، ایسے میں جب اس وقت روسی افواج کا زیادہ تر دھیان ڈونباس کے علاقے پر مرکوز ہے۔
لڑائی کے بارے میں یوکرین کے رہنما کی توقعات میں اضافہ اس وقت آیا جب ایک ہی روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو 70 کروڑ ڈالر مالیت کی ہتھیاروں کی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ،جس پیکیج میں جدید قسم کے راکٹ نظام اور گولہ بارود شامل ہے، تاکہ یوکرین روسی جارحیت کا مقابلہ کر سکے، جس لڑائی کو اب چار ماہ ہوچکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ یوکرین نے وعدہ کیا ہے کہ وہ یہ راکٹ روسی علاقے کے اندر فائر نہیں کرے گا۔
SEE ALSO: امریکہ کا روسی اشرافیہ کے خلاف مزید تعزیرات کا اعلانایک بیان میں صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ ''یہ نیا پیکیج یوکرین کو ہتھیاروں کی نئی اور بہتر صلاحیت میسر کرے گا، جس میں 'ایچ آئی ایم اے آر ایس' قسم کے جدید راکٹ اور سازو سامان شامل ہے تاکہ روسی پیش قدمی کا مقابلہ کرتے ہوئے یوکرین علاقے کا دفاع کر سکے''۔
زیلنسکی نے معمول کے اپنے روزانہ خطاب میں کہا ہے کہ یوکرین کو دی جانے والی ہتھیاروں کی اس کھیپ کی فہرست میں 'ایچ آئی ایم اے آر ایس' محض ایک ہتھیار ہے لیکن اس کے علاوہ اس امداد میں تین اہم چیزیں شامل ہیں۔
زیلنسکی نے کہا کہ یہ حقیقت کہ یوکرین کے دارالحکومت میں پھر سے سفارت خانے اپنے کام کا آغاز کر رہے ہیں، یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ انہیں یوکرین کی فتح کا یقین ہے۔