عرب میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں ایندھن کی وسیع قلت کی وجہ سے شام ایک بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔ شامی حکومت اب ملک کے مشرق میں آئل فیلڈز کو کنٹرول نہیں کرتی ، اور امریکی اقتصادی پابندیاں بحیرہ روم کی ساحلی پٹی کے ذریعے بیرون ملک سے پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کی حکومت کی اہلییت میں ایک سخت رکاوٹ بن گئی ہیں۔
مظاہرین نے ایندھن کی بڑھتی ہوئی قلت اور ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے سویدا میں ہفتے کے آخر میں شامی حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شام کے حسین عرنوس نے گزشتہ ہفتے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ایندھن کے شعبے کو درپیش صورت حال کی وجہ سے سرکاری ملازمین کے لیے دسمبر کے باقی دنوں میں کام کے ہفتے میں سے ایک دن کم کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اس کی وجہ امریکی اقتصادی پابندیوں اور تیل اور سمندر کے ذریعے ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی تاخیر سے تر سیل کو قرار دیا۔
شامی حکومت کے زیر کنٹرول شمالی شہر حما سے گزرتے ہوئے ایک شخص نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں اس شہر کی سڑکیں ایک منی بس کے علاوہ دیگر گاڑیوں کی آمدورفت سے تقریباً خالی دکھائی دیتی ہیں۔
دمشق کی سرکاری ویڈیو میں تقریباً خالی گلیوں کو دکھایا گیا ہےجن کے اطراف میں بہت سے لوگ پیدل چل رہے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شام کی حکومت کے حامیوں نے ایرانی آئل ٹینکرز کی سیٹلائٹ تصاویر شائع کیں ہیں جن کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ بندرگاہ والے شہر بنیاس پہنچ گئے ہیں، جہاں حکومت کے زیر انتظام ایک بڑی ریفائنری ہے۔
اپوزیشن کے دیگر ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی بحریہ نے کم از کم ایک ٹینکر کو یونان کے ساحل پر مختصر مدت کے لیے روک دیا تھا۔ وی او اے آزادانہ طور پر اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔
ایندھن کی قلت نے اتوار کے روز ٹریڈنگ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں شامی پاؤنڈ کی ریکارڈ کم ہوئی جس کی وجہ سے حکومت کے زیر کنٹرول حصوں میں رہنے والے عام باشندوں کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شام کے ٹی وی پر معیشت سے متعلق خبروں میں، ایندھن کے بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی بدحالی پر بات کرنے سے گریز کیا جاتاہے اور اس کی بجائےوہ یورپ میں توانائی کی قلت اور قیمتوں میں اضافے پررپورٹنگ کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے مطابق شام میں کئی فیکٹریاں مبینہ طور پر بند ہو چکی ہیں اور چینی پریس کا کہنا ہے کہ توانائی کی بچت کے لیے انٹر سٹی فٹ بال گیمز اور اسکولوں کے کھیلوں کے مقابلے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل میں سیاست اور توانائی کے تجزیہ کار پال سلیوان نے وی او اے کو بتایا کہ ان دنوں ’ تقریباً سب ہی شامی غریب ہو چکے ہیں‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بے رحم اور ظالم اسدحکومت معدودے چند افراد کے علاوہ اپنے عوام کی دیکھ بھال کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی، بہت سے شامی باشندے حرارت حاصل کرنے کے لیے پرانے کپڑوں سمیت جو بھی ناکارہ چیز مل جائے، جلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک اوسط شامی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔
سلیوان کا کہنا تھا کہ شام میں زیادہ۔ تر تیل ملک کے ان حصوں سے حاصل ہوتا ہے جنہیں کردوں کا اثر و رسوخ حاصل ہےجب کہ ملک کے دیگر حصوں کئی طرح کی وجوہات کی بنا پرایندھن کی ترسیل میں کمی ہو رہی ہے۔
پال سلیوان نے بتایا کہ شام کے شمال مشرقی علاقوں میں، جہاں سے زیادہ تر تیل نکا لا جاتا ہے اور اسے دوسرے علاقوں میں بھیجا جاتا ہے، ترکوں کے فضائی حملوں کی وجہ سے بھی تیل کی پیداوار اور نقل و حمل متاثرہوئی ہے۔