امریکہ کے انتہائی مطلوب شخص کی پاکستان میں موجودگی اور ہلاکت کے بعد دہشت گردوں نے ایک بار پھر ملک کے انتہائی سیکیورٹی والے ادارے کو نشانہ بنایا ہے ۔ سابق امریکی سفیر بل مائیلم کہتے ہیں کہ ان دونوں واقعات نے پاکستان کے دفاعی ادارے کو مدافعتی انداز اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں فوج اس وقت بالکل چپ ہے۔ پاکستانی حکومت نے فوج کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے، جو ایک غیر معمولی بات ہے ۔ پاکستانی فوج اس وقت انتہائی دفاعی پوزیشن میں ہے۔ بالکل ویسے جیسے ہم نے 1972 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد دیکھا گیا تھا ۔ تو میرے خیال میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں جاری ہیں کہ کیسے صورتحال کو سنبھالا دیا جائے ۔
بل مائیلم نے پاکستان کی صورتحال کا انتہائی پیچیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ یہ نہیں چاہتا کہ پاکستانی فوج اور جمہوری حکومت کسی بھی معاملے پر ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہو ں یاضرورت سے زیادہ ایک دوسرے کی طرف جھکیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال پاکستان اور امریکہ کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت کو واضح کرتی ہے ۔ صدر اوباما کی جانب سے پاکستان میں کسی اور مطلوب دہشت گرد کی موجودگی پر دوبارہ ایبٹ آباد جیسی کارروائی کرنے کے بیان پر سابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ایسا بیان دینے کا وقت درست نہیں تھا ۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ کہوں گا کہ صدر اوباما کو یہ بات کسی اورو قت پر کرنی چاہئے تھی بلکہ کچھ عرصے تک بالکل نہیں کرنی چاہئے تھی۔ جو واحد اہم ہدف باقی رہ گیا ہے ، وہ ملا عمر ہیں جو شاید پاکستان چھوڑ چکے ہیں ۔ میں نہیں جانتاکہ صدر اوباما کا مطلب کس انتہائی مطلوب ہدف سے تھا یا وہ ڈرون حملوں کی بات کر رہے تھے ۔ اس وقت پاکستانی فوج اور ہمارے درمیان ڈرونز کے معاملے پر اتنی پیچیدگی ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کس چیز کی اجازت کون دیتا رہا ہے ۔
http://www.youtube.com/embed/11_3GF1yQzE
بل مائیلم کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کی گئی کارروائی کے بعد پاکستان میں سامنے آنے والا رد عمل اور امریکی بجٹ کا خسارہ کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امدادکو متاثر کر سکتا ہے ، لیکن ایساکرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہوگا ۔
امریکہ میں اس وقت بجٹ میں کٹوتی کی بات ہو رہی ہے جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ تمام اراکین کانگریس اور سینیٹرز کو اس کا اندازہ ہے ۔تو ممکن ہے جو خرچ انہیں سیاسی لحاظ سے مشکل دکھائی دے ، اسے ختم کر دیا جائے ، اس سے ان کے اخراجات کم ہو جائیں گے ۔میرا اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے پہلے ہی یہ خیال تھا کہ شاید بجٹ میں کمی کی وجہ سے ہم کیری لوگر بل کی آدھی رقم نہ دے سکیں ۔ لیکن یہ سوچ کہ پاکستان میں ہونےو الے رد عمل کی وجہ سے ہمیں پاکستان کی معاشی امداد میں کمی کرنی چاہئے ، کسی کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگی
بل مائیلم کہتے ہیں کہ سینیٹر جان کیری نے اپنے دورہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف جن ٹھوس اقدامات کی بات کی ، ان کی تفصیلات پاکستانی قیادت پرضرور واضح کی گئی ہونگی لیکن ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو نظر انداز کر کے افغانستان کے مسئلے کاکوئی دیرپا حل نکالنا ممکن نہیں ۔