سابق صدرمعمر قذافی کی ہلاکت کے بعد خطہ عرب میں چار عشروں پر محیط ایک دور کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ لیبیا کی قومی عبوری کونسل کے جنگجوؤں کے ہاتھوں اپنے آبائی شہر سرت میں ایک جھڑپ کے دوران ان کی ہلاکت کے بعدامریکی صدر براک اوباما سمیت عالمی راہنماوں کی جانب سے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے ۔دوسری جانب ماہرین اب ان چیلنجز پر بھی غور کر رہے ہیں ، جن کاسامنا لیبیا کی عبوری حکومت کو آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے۔
معمر قذافی کی ہلاکت لیبیا کی تاریخ کے اس باب کا خاتمہ قرار دی جا رہی ہے ، جو 40سال پہلے 1969ء میں لیبیا کے سابق بادشاہ کے خلاف ایک فوجی بغاوت سے شروع ہوا تھا ۔جس کے نتیجے میں اقتدار سنبھالنے والے کرنل قذافی نے جلد ہی مغربی دنیا میں ایک صاف گو راہنما کی شہرت حاصل کرلی ۔ انہوں نے اپنا فوجی یونیفارم اتار دیا اور عرب دنیا کو متحد کرنے کے نعرے کے ساتھ ایک عرب بدو کی وضع قطع اپنا کر ، اپنے چمکدارلوازمات اور خواتین باڈی گارڈز کے ساتھ عالمی سٹیج پر ایک ، عجیب مگر غیر معمولی مقام حاصل کیا ۔
انہوں نے لیبیا میں ایک ایسا سماجی، سیاسی اور معاشی نظام قائم کیا ،جس میں اداروں کے پنپنے کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی ۔ انہوں نے اپنے قائم کردہ اس نظام کو جسے جماہیریہ کا نام دیا گیا تھا ، اپنی ایک کتاب میں واضح بھی کیا ۔لیکن واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈینئیل سرور کہتے ہیں کہ یہ نظام کامیاب نہیں تھا ۔
http://www.youtube.com/embed/NgmvpTcToMo
ان کا کہناہے کہ وہ ایک ایسے راہنما تھے ، جس نے اپنے لوگوں کو بتایا کہ انہیں اپنے اوپر حکمرانی کے لئے کونسلز بنانی چاہئیں ۔لیکن عوام کوملک کی حکمرانی کی کبھی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ فردواحد کی حکومت تھی ۔
لیبیا کی تیل اور گیس کی دولت نے ایک عرصے تک اندرونی اور بیرونی سطح پر صدر قذافی کے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے میں مدد دی ۔ انہیں مختلف قبائل میں بٹے لیبیا کے اتحاد کی علامت بھی قرار دیا گیا ۔ لیکن دہشت گردی کے چند واقعات میں لیبیا کا نام سامنے آنے سے صدر قذافی کا عالمی تاثر خراب ہوا ۔ جس میں 1986ء میں ایک جرمن نائٹ کلب میں بم دھماکے اور 1988ء میں سکاٹ لینڈ میں لاکر بی کے مقام پر ایک امریکی مسافر طیارے کو بم حملے میں اڑانے کے واقعات شامل تھے ۔ دونوں واقعات میں مجموعی طور پر 272 افراد ہلاک ہوئے ۔
2003ء میں لیبیا نے مغرب سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کا اعلان کیا ، جس کے بعد لیبیا پر پابندیاں کم ہو گئیں اورامریکہ سمیت مغرب نے لیبیا سے سفارتی تعلقات بحال کر لئے ۔
اس سال کے آغاز میں لیبیا میں صدر قذافی کی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کا جواب مظاہرین کے خلاف سخت کارروائیوں سے دیا گیا ۔ اقوام متحدہ نے لیبیا کے خلاف پابندیاں عائد کر دیں اور نیٹواتحاد کی جانب سے اس سال مارچ میں حملوں کے آغاز کے کئی ماہ بعد بھی معمر قذافی اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ معمر قذافی کی ذات ہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ رہی ۔ تجزیہ کار جیرالڈ پوسٹ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں ان کا اپنا ایک تاثر تھا ، دوسرے الفاظ میں ان کی مجلس کا سب سے اہم مخاطب دیوار میں نصب آئینہ تھا ۔ جس سے وہ پوچھتے تھے کہ دنیا کا سب سے اہم پین ایفریقن لیڈر ، کون ہے ۔ اور انہیں یہی جواب ملتا تھا ، کہ آپ معمر ۔۔صرف آپ ۔
گویا ایک خانہ بدوش والدین کے اس فوجی سپوت نے جسے 40 سال تک اپنے ملک کو متحد کرکے رکھنے کا دعوی تھا ، اپنے ہی عوام کو اپنے خلاف متحد کر لیا ۔اب ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبیا کی قومی عبوری کونسل کو، جسے ریاستی معاملات چلانے کے لئے لیبیا میں پہلے سے موجود کسی سیاسی یا سرکاری ادارے کی مدد اور مہارت حاصل نہیں ، ان چیلنجز پر قابو پانا ہے ، جو کسی جمہوری یا باقاعدہ حکومت کے قیام تک ملک کا نظام چلانے میں پیش آئے گی ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران لیبیا کو زبردست عالمی تعاون کی ضرورت رہے گی ۔