جارجیا کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت کے سربراہ نے ملک کے صدر میخائل سکاشولی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ واپس لے لیا ہے۔
واشنگٹن —
جارجیا کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت کے سربراہ نے ملک کے صدر میخائل سکاشولی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ واپس لے لیا ہے۔
انتخابات میں کامیاب قرار دیے جانے والے 'جارجیا ڈریم' نامی سیاسی اتحاد کے سربراہ بڈزینا ایوانشولی نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ صدر سکاشولی سے اپنا عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔
اپنے بیان میں ایوانشولی نے موجودہ صدر کو حکومت سازی کے عمل میں تعاون کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
انتخابی حکام نے پیر کو 'جارجین ڈریم' کی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ایوانشولی نے جارجین صدر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی جماعت کی شکست کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔
تاہم ملکی پارلیمان کے اسپیکر ڈیوڈ بکراڈزے نے اس مطالبے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کی رو سے صدر انتخابات کی فاتح جماعت کو حکومت سازی میں مدد دینے کے پابند ہیں۔
گزشتہ روز صدر سکاشولی نے انتخابات میں ا پنی جماعت کی شکست تسلیم کرتے ہوئے نئی حکومت سازی میں حزبِ اختلاف کی مدد کرنے کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ سکاشولی کے عہدہ صدارت کی مدت آئندہ برس ختم ہورہی ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی مدت کی تکمیل تک اس عہدے پر موجود رہیں گے۔
ملکی آئین میں کی جانے والی بعض ترامیم کے ذریعے صدر کے اہم اختیارات ملک کے نومنتخب وزیرِاعظم کو سونپ دیے جائیں گے۔ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ ایوانشولی وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے میں خود دلچسپی رکھتے ہیں۔
ادھر بدھ کو روس نے جارجیا میں ہونے والی پارلیمانی انتخابات کے نتائج پر محتاط ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ حالیہ انتخابی عمل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
روس کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "جارجیا کے معاشرے نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے"۔
ایوانشولی پہلےہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد روس اور مغربی طاقتوں کے ساتھ قریبی روابط قائم کریں گے۔ انہوں نے جارجیا کو یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بنانے کی کوششیں بھی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
انتخابات میں کامیاب قرار دیے جانے والے 'جارجیا ڈریم' نامی سیاسی اتحاد کے سربراہ بڈزینا ایوانشولی نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ صدر سکاشولی سے اپنا عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔
اپنے بیان میں ایوانشولی نے موجودہ صدر کو حکومت سازی کے عمل میں تعاون کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
انتخابی حکام نے پیر کو 'جارجین ڈریم' کی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ایوانشولی نے جارجین صدر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی جماعت کی شکست کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔
تاہم ملکی پارلیمان کے اسپیکر ڈیوڈ بکراڈزے نے اس مطالبے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کی رو سے صدر انتخابات کی فاتح جماعت کو حکومت سازی میں مدد دینے کے پابند ہیں۔
گزشتہ روز صدر سکاشولی نے انتخابات میں ا پنی جماعت کی شکست تسلیم کرتے ہوئے نئی حکومت سازی میں حزبِ اختلاف کی مدد کرنے کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ سکاشولی کے عہدہ صدارت کی مدت آئندہ برس ختم ہورہی ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی مدت کی تکمیل تک اس عہدے پر موجود رہیں گے۔
ملکی آئین میں کی جانے والی بعض ترامیم کے ذریعے صدر کے اہم اختیارات ملک کے نومنتخب وزیرِاعظم کو سونپ دیے جائیں گے۔ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ ایوانشولی وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے میں خود دلچسپی رکھتے ہیں۔
ادھر بدھ کو روس نے جارجیا میں ہونے والی پارلیمانی انتخابات کے نتائج پر محتاط ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ حالیہ انتخابی عمل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
روس کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "جارجیا کے معاشرے نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے"۔
ایوانشولی پہلےہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد روس اور مغربی طاقتوں کے ساتھ قریبی روابط قائم کریں گے۔ انہوں نے جارجیا کو یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بنانے کی کوششیں بھی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔