جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے "دوستوں "کی اس طرح جاسوسی کرنے کا عمل قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔
واشنگٹن —
جرمنی کی حکومت نے امریکہ کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے مبینہ طور پر یورپی یونین کے دفاتر میں جاسوسی کے آلات نصب کرنے اور اندرونی کمپیوٹر نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کرنے کے الزامات پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کے ایک ترجمان نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے "دوستوں "کی اس طرح جاسوسی کرنے کا عمل قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)' کی جانب سے جرمنی اور یورپی یونین کے دفاتر کی مبینہ جاسوسی کے بارے میں جرمن جریدے 'ڈی شپیغل' میں چھپنے والی رپورٹ کے بعد امریکہ اور جرمنی کے درمیان باہمی اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔
'ڈی شپیغل' نے ہفتے کو اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 'این ایس اے' نے یورپی یونین کے واشنگٹن اور برسلز کے دفاتر اور اقوامِ متحدہ کے نیویارک میں واقع صدر دفتر میں خفیہ مائیکرو فونز نصب کیے تھے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ خفیہ ایجنسی نے یورپی یونین کے دفاتر کے کمپیوٹر نیٹ ورکس میں گھس کر ٹیلی فونوں پر ہونے والی گفتگو، ای میل اور دوسری دستاویزات تک بھی رسائی حاصل کی تھی۔
جرمن جریدے نے اپنی یہ رپورٹ 'این ایس اے' کے سابق کنٹریکٹ ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کی بنیاد پر شائع کی تھی جو ان دنوں مفرور ہیں۔
سنوڈن نے اس سے قبل 'این ایس اے' کی جانب سے عام امریکی شہریوں کی ٹیلی فون کالوں اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی کے پروگرام سے متعلق معلومات بھی برطانوی اخبار 'گارڈین' کو فراہم کی تھیں۔
تیس سالہ سنوڈن مئی کے اواخر میں امریکہ سے ہانگ کانگ آگئے تھے جس کے چند روز بعد برطانوی اخبار نے ان کے انکشافات پر مبنی رپورٹ شائع کی تھی۔
امریکی حکام نے سنوڈن کے انکشافات پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور انہیں واپس امریکہ لانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
سنوڈن گزشتہ ایک ہفتے سے روس کے دارالحکومت ماسکو کے ہوائی اڈے کے ٹرانزٹ لائونج پر موجود ہیں جب کہ روسی حکومت انہیں امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کرچکی ہے۔
جرمن جریدے نے 'این ایس اے' کی ستمبر 2010ء کی ایک دستاویز بھی شائع کی ہے جس کے مطابق امریکی ایجنسی نے صرف ان ممالک کو اپنی جاسوسی کی سرگرمیوں سے مستثنیٰ قرار دے رکھا تھا جنہیں امریکہ اپنا انتہائی قریبی دوست سمجھتا ہے۔
دستاویز کے مطابق ان ممالک میں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا ردِ عمل
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں امریکی خفیہ ایجنسی کی جانب سے یورپی اداروں کی جاسوسی سے متعلق خبروں کا زیادہ علم نہیں۔
اپنے بیان میں جان کیری نے کہا ہے کہ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف ملکوں کی جانب سے اس طرح کی کوئی سرگرمی کرنا "غیر معمولی" عمل نہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ ان دنوں جنوب مشرقی ایشیائی ملک برونائی میں جاری ایک علاقائی کانفرنس میں شریک ہیں جہاں انہوں نے پیر کو یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والے اس نئے تنازع پر یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن سے ملاقات کی۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ نے مس ایشٹن کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے پر متعلقہ حکام کے ساتھ گفتگو اور مزید معلومات حاصل کرکے انہیں اس پر اعتماد میں لیں گے۔
ایڈورڈ سنوڈن کے تازہ انکشافات کے بعد یورپی اداروں اور رہنمائوں کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آرہا ہے اور کئی رہنمائوں نے امریکہ کے ساتھ جاری مجوزہ 'ٹرانس –اٹلانٹک' تجارتی معاہدے پر مذاکرات معطل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کے ایک ترجمان نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے "دوستوں "کی اس طرح جاسوسی کرنے کا عمل قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)' کی جانب سے جرمنی اور یورپی یونین کے دفاتر کی مبینہ جاسوسی کے بارے میں جرمن جریدے 'ڈی شپیغل' میں چھپنے والی رپورٹ کے بعد امریکہ اور جرمنی کے درمیان باہمی اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔
'ڈی شپیغل' نے ہفتے کو اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 'این ایس اے' نے یورپی یونین کے واشنگٹن اور برسلز کے دفاتر اور اقوامِ متحدہ کے نیویارک میں واقع صدر دفتر میں خفیہ مائیکرو فونز نصب کیے تھے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ خفیہ ایجنسی نے یورپی یونین کے دفاتر کے کمپیوٹر نیٹ ورکس میں گھس کر ٹیلی فونوں پر ہونے والی گفتگو، ای میل اور دوسری دستاویزات تک بھی رسائی حاصل کی تھی۔
جرمن جریدے نے اپنی یہ رپورٹ 'این ایس اے' کے سابق کنٹریکٹ ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کی بنیاد پر شائع کی تھی جو ان دنوں مفرور ہیں۔
سنوڈن نے اس سے قبل 'این ایس اے' کی جانب سے عام امریکی شہریوں کی ٹیلی فون کالوں اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی کے پروگرام سے متعلق معلومات بھی برطانوی اخبار 'گارڈین' کو فراہم کی تھیں۔
تیس سالہ سنوڈن مئی کے اواخر میں امریکہ سے ہانگ کانگ آگئے تھے جس کے چند روز بعد برطانوی اخبار نے ان کے انکشافات پر مبنی رپورٹ شائع کی تھی۔
امریکی حکام نے سنوڈن کے انکشافات پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور انہیں واپس امریکہ لانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
سنوڈن گزشتہ ایک ہفتے سے روس کے دارالحکومت ماسکو کے ہوائی اڈے کے ٹرانزٹ لائونج پر موجود ہیں جب کہ روسی حکومت انہیں امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کرچکی ہے۔
جرمن جریدے نے 'این ایس اے' کی ستمبر 2010ء کی ایک دستاویز بھی شائع کی ہے جس کے مطابق امریکی ایجنسی نے صرف ان ممالک کو اپنی جاسوسی کی سرگرمیوں سے مستثنیٰ قرار دے رکھا تھا جنہیں امریکہ اپنا انتہائی قریبی دوست سمجھتا ہے۔
دستاویز کے مطابق ان ممالک میں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا ردِ عمل
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں امریکی خفیہ ایجنسی کی جانب سے یورپی اداروں کی جاسوسی سے متعلق خبروں کا زیادہ علم نہیں۔
اپنے بیان میں جان کیری نے کہا ہے کہ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف ملکوں کی جانب سے اس طرح کی کوئی سرگرمی کرنا "غیر معمولی" عمل نہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ ان دنوں جنوب مشرقی ایشیائی ملک برونائی میں جاری ایک علاقائی کانفرنس میں شریک ہیں جہاں انہوں نے پیر کو یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والے اس نئے تنازع پر یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن سے ملاقات کی۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ نے مس ایشٹن کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے پر متعلقہ حکام کے ساتھ گفتگو اور مزید معلومات حاصل کرکے انہیں اس پر اعتماد میں لیں گے۔
ایڈورڈ سنوڈن کے تازہ انکشافات کے بعد یورپی اداروں اور رہنمائوں کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آرہا ہے اور کئی رہنمائوں نے امریکہ کے ساتھ جاری مجوزہ 'ٹرانس –اٹلانٹک' تجارتی معاہدے پر مذاکرات معطل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔