جرمنی کی وزیر خارجہ نے ایران میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف وحشیانہ جبر و ظلم کرنے والوں کے خلاف یورپی یونین میں داخلے پر پابندی اور اثاثے منجمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران کی مذہبی حکومت کے خلاف برسوں میں سب سے شدید اور متواتر مظاہرے اب اپنے چوتھے ہفتے میں بھی جاری ہیں۔ یہ مظاہرے 17 ستمبر کو 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی تدفین کے بعد بھڑک اٹھے تھے۔ مہسا امینی ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں فوت ہوئی تھی۔ امینی کو خواتین کے لیے سخت اسلامی لباس کے ضابطوں کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے، ملک بھر میں مظاہرے پھیل گئے، سرکاری اہل کاروں نے ان مظاہرین پر سخت ظلم و تشدد کیا، جس میں ایک اندازے کے مطابق درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک کا کہنا تھا کہ "جو خواتین اور لڑکیوں کو سڑکوں پر مارتے ہیں، ان لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں جو آزادانہ زندگی گزارنے کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے، انہیں من مانے طریقے سے گرفتار کرتے ہیں اورانہیں موت کی سزا سناتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یورپی یونین اس وحشیانہ جبر کے ذمہ داروں پر داخلے پر پابندی عائد کرے اور یورپی یونین میں ان کے اثاثے منجمد کر دے۔ہم ایران میں لوگوں سے کہتے ہیں: ہم آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور رہیں گے۔"
جمعرات کو یورپی یونین کے قانون سازوں نے ایک قرارداد کی منظوری دی جس میں امینی کی موت اور اس کے نتیجے میں کریک ڈاؤن کے ذمہ داروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
جرمنی، یورپی یونین کے رکن فرانس کے ساتھ ان ممالک میں شامل ہے جو اسلامی جمہوریہ کے جوہری پروگرام پر خدشات کو دور کرنے کے لیے ایران کے ساتھ 2015 کے معاہدے کا حصہ ہیں اور اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی تک یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔
اتوار کے روز، ایرانی سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں طلبہ کو تہران کی الزہرا یونیورسٹی کے کیمپس میں احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا، جس میں واقعے کے بعد ایرانی صدر کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جو وہاں کا دورہ کر رہے تھے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)