27 دسمبر، 1797 کو یعنی اب سے ٹھیک 220 برس قبل تاج محل کے امین شہر آگرہ میں ایک ایسی شخصیت کی ولادت ہوئی جسے بعد میں اکثر تنقید نگاروں اور تاریخ دانوں نے اُردو کی تاریخ کے عظیم ترین شاعر کا رتبہ دیا۔ یہ عظیم شاعر کوئی اور نہیں مرزا اسداللہ غالب تھے جن کا اصل نام اسداللہ بیگ خان تھا اور وہ غالب تخلص کرتے تھے۔
غالب کے آباؤاجداد ایبک ترک تھے جو سلجوک بادشاہوں کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد ثمرقند جا کر آباد ہو گئے۔
غالب 13 برس کی عمر میں آگرہ سے دلی چلے آئے۔ یہاں متعدد کرائے کے مکان بدلنے کے بعد جو گھر حقیقی طور پر اُن سے موسوم ہوا ، وہ دلی کے چاندنی چوک کے مضافاتی علاقے بلی ماراں کی گلی قاسم جان میں تین کمروں پر مشتمل گھر تھا جہاں اُنہوں نے اپنی زندگی کے آخری چھ سال گزارے اور پھر یہیں 15 فروری، 1869 کو اُن کا انتقال ہوا۔
اس گھر کو اب غالب کی حویلی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسے 1997 میں بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ نے حاصل کر کے اسے ہیریٹیج سائیٹ کی حیثیت دے دی۔
ہر روز اُردو ادب سے شغف رکھنے والے سینکڑوں لوگ غالب کی حویلی دیکھنے آتے ہیں ۔ اس حویلی کا وسیع دالان مغل طرز تعمیر کا نمونہ پیش کرتا ہے اور حویلی کی دیواروں پر غالب کی قدآور تصاویر اور اُن کے اشعار آویزاں ہیں۔ ان میں بہت سے اشعار خود اُن کے ہاتھ سے تحریر کردہ ہیں۔ حویلی میں اُن کا ایک جیتا جاگتا مجسمہ بھی موجود ہے جس میں اُنہیں اپنے حقے کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ اس مجسمے کی رونمائی 2010 میں معروف شاعر اور دانشور گلزار نے کی تھی۔
غالب کی تصاویر کے ساتھ ساتھ حویلی میں شیخ ابراہیم ذوق، بہادر شاہ ظفر اور مومن جیسے عظیم شعرا کی تصاویر بھی موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ دیوانِ غالب اسی گھر میں مرتب ہوا۔ غالب نے اپنی عمر کے دوران مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے علاوہ 1857 کی جنگ آزادی کا زمانہ بھی دیکھا اور اُن کی شاعری میں ان دونوں المیوں کی عکاسی ملتی ہے۔
غالب کا سفید سنگ مرمر سے بنا مزار پرانی دلی کے جنوبی علاقے کی اُس گلی کے بائیں جانب ہے جو مشہور صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ تک جاتی ہے۔