تعاون کے خواہاں لیکن سب سے اول ملک کی سالمیت

(فائل فوٹو)

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اُن کا ملک واشنگٹن کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں تعاون جاری رکھنے کا خواہاں ہے لیکن اس کے لیے امریکہ کو پاکستان کی سالمیت کی ضمانت دینا ہو گی۔

اُنھوں نے یہ بات جمعہ کو اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر کیمرون منٹر سے ہونے والی ملاقات میں کہی۔ امریکی سفیر نے وزیراعظم گیلانی سے یہ ملاقات ایک ایسے وقت کی ہے جب نیٹو کے حملے کے بعد دوطرفہ تعلقات ناصرف کشیدہ ہیں بلکہ پاکستانی عہدیداروں کے بقول جمود کا شکار ہو چکے ہیں۔

کمیرون منٹر کی ملاقات بظاہر اسی کشیدگی کو کم کرنے کی کوششوں کے سلسلے کی کڑی تھی لیکن ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نے ایک بار پھر واضح کیا کہ امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے لیے طے شدہ حدود یا ریڈ لائنز کا احترام کرنا چاہیئے۔

مزید برآں وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ امریکہ اس بات کی ضمانت بھی دے کہ مستقبل میں اُن کے ملک کی سرحدوں کی دوبارہ ایسی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی، جیسا کہ 26 نومبر کو نیٹو نے فضائی حملہ کر کے 24 پاکستانیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی سفیر نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کو مکمل تعاون کرنا چاہیئے، کیوں کہ ’’دہشت گردی پاکستان اور امریکہ دونوں کا مشترکہ دشمن ہے‘‘۔

اس ملاقات کے بعد امریکی سفیر نے اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مہمند ایجنسی میں کیے گئے نیٹو حملے کے حقائق جاننے کے لیے بین الاقوامی اتحادی افواج اور خود امریکی فوج بھی اپنے طور پر الگ الگ تحیقات کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ نیٹو کا حملہ دانستہ طور پر کی جانے والی کارروائی نہیں تھی۔

سفیر کمیرون منڑ نے کہا کہ تحقیقات کے حتمی نتائج سے پاکستان کو آگاہ کیا جائے گا اور اس کی بنیاد پر مشترکہ لائحہ عمل وضع کر کے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ مہمند ایجنسی جیسا المناک حادثہ دوبارہ کبھی پیش نا آئے۔

امریکی سفیر نے کہا کہ تحقیقات آنے والے ہفتوں میں مکمل کر لی جائیں گی لیکن اس سلسلے میں اُنھوں نے حتمی تاریخ کا ذکر کرنے سے گریز کیا۔

کیمرون منٹر


پاکستان اس تحقیقات میں شامل ہونے کی امریکی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر چکا ہے کہ ماضی میں بھی نیٹو کی ایسی کارروائیوں کی تحقیقات کے نتیجے میں نا تو کوئی نئی معلومات سامنے آ سکیں اور نا ہی ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔